
باپ …… اک سائبان! (محمد نورالہدیٰ)
باپ …… اک سائبان! (محمد نورالہدیٰ)
اسلام سے زیادہ والدین کو ارفع مقام شاید ہی کسی اور مذہب نے عطا کیا ہو۔ ماں کی تمام تر محبت اور شفقت اپنی جگہ لیکن باپ کی اہمیت اور کردار سے انکار بھی ممکن نہیں۔ باپ کی عظمت کے اعتراف میں ہی نبیؐ نے فرمایا تھا کہ ”باپ کی رضا میں اللہ کی رضا ہے“۔ اور نبیؐ کے ایک اور فرمان کے مطابق ”اگر ماں کے قدموں میں جنت ہے تو باپ جنت میں جانے کا دروازہ ہے“۔
باپ وہ ہستی ہے جو تپتی دھوپ میں ایک چھت اور ایک ایسی چھتری کی مانند ہے جو محنت کی پوٹلی اٹھائے حصول ِ رزق کے لئے سڑکوں اورگلیوں میں مارا مارا پھرتا ہے، دفتر میں فائلوں کے ڈھیر میں الجھا دن ڈھلے گھر لوٹتا ہے تو اولاد کی ایک جھلک دیکھ کر ہی اس کی تھکن دور ہوجاتی ہے۔
والد، عزم و ہمت کا کوہ ہمالیہ اور اک سائبان ہے۔ محبت کا سائبان، استقامت کا سائبان، علم کا سائبان، تجربات و مشاہدات کا سائبان …… جن کا سائبان سلامت ہے، خدا اسے سلامت رکھے اور اس سائبان کی حفاظت اور قدر کی توفیق دے۔ یقینا باپ کی موجودگی اور اس کی شفقت …… کائنات کا وہ عظیم روپ ہے جو ایک محفوظ پناہ گاہ کے مترادف ہے، جو زمانے کی تپش سے اولاد کو بچا کر خود جھلس جاتا ہے، مگر اولاد پر اس آگ کی آنچ نہیں پڑنے دیتا۔
میرے والد گرامی (اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ہمیں ان کی بخشش کا وسیلہ بنائے۔ آمین) کے اطوار بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ اپنی ذمہ داریوں کو انہوں نے شدت کے ساتھ محسوس کیا اور گرمیوں کی سلگتی دھوپوں اور سردی کی ٹھٹھرتی صبحوں اور راتوں کو بھی آڑے نہ آنے دیا۔مجھے یاد ہے میرے والد جب حیات تھے تو فکر معاش میں اس قدر ڈوبے ہوتے تھے کہ نوکری جانے کے ڈر سے ہسپتال میں پڑے ہوئے بھی انہیں دفتر کے کاموں کی پریشانی رہتی تھی۔ ہارٹ اٹیک ہوا، ہسپتال میں داخل ہوئے تو دن میں کئی کئی مرتبہ دفتر فون کرکے خود بات کرتے اور معاملات سے متعلق دریافت کرتے۔ عزیز و اقارب تسلی دیتے تو کہتے کہ مجھے ڈر ہے کہ بیماری کی وجہ سے کہیں نوکری نہ چلی جائے، اگر ایسا ہوگیا تو بچوں کو کہاں سے کھلاؤں گا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ بخار میں تپ رہے ہوتے اور گھر والوں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود دفتر جاپہنچتے، طاقت نہ ہونے کے باوجود دفتری امور نبھاتے رہتے۔ غرض ہمیں زمانے کی تپش سے بچانے کے لئے کھلے آسمان تلے خود کو چھتری بناکر جھلساتے رہتے مگر ہمیں سایہ فراہم کرتے اور زمانے کی سختیوں کے وار خود پر روک کر اپنا جسم چھلنی کرتے رہے۔
ان کی زندگی کا وہ آخری دن مجھے آج بھی یاد ہے جب دل کی تکلیف کے باعث میں انہیں ہسپتال لے کر گیاتو انہوں نے دفتر فون کرکے انتہائی فکرمندی سے اطلاع دی اور کہا کہ میں شام تک ڈسچارج ہوکر کل دفتر حاضر ہوجاؤں گا، اور پھر سمجھانے لگ گئے کہ فلاں کام کو ایسے کرنا ہے، فلاں چیز فلاں جگہ پڑی ہے، اور فلاں بندہ آئے تو اسے یہ کہنا ہے۔ مگر شام کے قریب ان کی سانسیں اکھڑنا شروع ہوگئیں، بالآخر سانسوں کا تسلسل ٹوٹ گیا اور وہ دنیا کے جھمیلوں سے ڈسچارج ہو گئے۔
ہمارے گھریلو حالات امیرانہ تو نہیں تھے مگر اس کے باوجود پیار و شفقت کے ساتھ ساتھ میرے والد نے کبھی ہمیں کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ ہاتھ تنگ ہونے کے باوجود ابو جان کسی نہ کسی چیز کی ”عیاشی“ کروا دیا کرتے اور کوئی نہ کوئی چیز گھر لے آتے۔ امی کہتیں کہ اتنی مہنگائی ہے اور ہماری گنجائش پہلے ہی نہیں ہے، کیوں اتنی فضول خرچی کرتے ہیں، تو ابو جان معصومیت کے ساتھ کہتے کہ ماں باپ تو ہوتے ہی اولاد کی فرمائشیں پوری کرنے کے لئے ہیں۔ کل کو ہم نہ ہوئے تو کون ان کی خواہشیں پوری کرے گا، ہماری زندگی کا تو حاصل ہی یہی ہے۔ عیاشی واقعی باپ کے پیسوں سے ہی ہوتی تھی۔ اپنی تنخواہوں سے تو خرچے بھی پورے نہیں ہوتے۔ واقعی یہ باپ کا ہی حوصلہ ہوتا ہے کہ کیسے وہ اپنا پیٹ کاٹ کر اولاد کے خرچے پورے کرتے ہیں۔ ہماری زندگی کی بنجر زمینوں کو اپنی شفقت کے پانی سے سرسبز و شاداب رکھتے ہیں۔ ان کے اندر موجود طغیانی، ہماری خوشیوں کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ بہا لے جاتی ہے۔ یہ خود سوکھ کر بنجر ہونا گوارہ کر لیتے ہیں۔ اپنے روز و شب مشکل میں ڈال کر خود سختیاں جھیلتے ہیں …… مگر ہماری زندگی سہل بنانے کیلئے اپنی صحت تک داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ بلاشبہ ان کے چلے جانے کے بعد ہی احساس ہوتا ہے کہ دنیا کا دیا گیا سبق تو بہت مشکل ہے۔ ہم بھائیوں کو گھر سے باہر کوئی مسئلہ درپیش ہوجاتا تو ابوجان مداخلت کرکے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سلجھادیتے۔ آج ان کی کمی بہت شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے۔ ہم چاہے عمر کے کسی بھی حصے میں پہنچ جائیں، باپ کی کمی قدم قدم محسوس ہوتی ہے۔
کبھی بیٹھوں جو تنہائیوں کے اندھیرے میں بابا
میرے سر پر پیار سے رکھا تیرا وہ ہاتھ بہت یاد آتا ہے
بہت سی الجھنیں ہیں، بہت سی مشکلیں ہیں میرے با با
سوچوں تو ”ہمت سے کر مقابلہ“ تیرا کہنا بہت یاد آتا ہے
آج ہمارا معاشرہ مغربی تہذیب کی تقلید کررہا ہے۔ اکثر مڈل کلاس گھرانوں میں باپ کی حیثیت دستوری اور علامتی سی ہوتی ہے۔ تمام قربانیوں کے باوجود باپ کو وہ رتبہ نہیں دیا جاتا جس کا وہ حقدار ہے۔ دوسری طرف جس طرح مغربی ممالک میں عمر کے آخری حصے میں، جب انسان کو اولاد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے انہیں اولڈ ہومز میں داخل کرادیا جاتا ہے، تاکہ ان کی عملی زندگی میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے، اسی ڈگر پر ہمارے یہاں بھی اولڈ ہومز میں رہائش اختیار کرنے والے مائی بابوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مگر کاش ہم یہ بھی سوچ سکیں کہ والدین دس بچے بھی بڑی چاہت سے پالتے ہیں جبکہ بچے اپنے دو والدین یا ان میں سے ایک کو بھی پالنا اپنے لئے مشکل سمجھتے ہیں۔
کہتے ہیں بوڑھا اور بچہ برابر ہوتے ہیں لیکن ذرا سوچیں کہ بچے کے ماں باپ ہوتے ہیں، مگر بوڑھے کو تو پالنے والا کوئی نہیں۔ جتنی توجہ ایک بچے کو ماں اور باپ کی ہوتی ہے اتنی ہی توجہ بوڑھے والدین کو بھی بچوں کی ہوتی ہے۔ ایسے ماحول میں ماں باپ کی اشک شوئی کے لئے ہر سال مروتاً مدر ڈے اور فادر ڈے منالینا مغربی تقلید کی عکاسی نہیں تو اور کیا ہے۔ حالانکہ اتنی ساری مہربانیوں اور قربانیوں کے عوض محبت کے محض دو بول ہی اس کی مایوسی اور تھکان کو خوشی اور تفاخر میں بدل دیتے ہیں، بڑھاپے کو جوانی میں تبدیل کردیتے ہیں اور بیماری کو چند لمحوں کے لئے ہی سہی، مگر بھلا دیتے ہیں۔
آج فاردر ڈے یہ سوچنے پر بھی مجبور کررہا ہے کہ جس طرح والدین دن رات ایک کرکے ہمیں پالتے، ہماری تعلیم سمیت تمام اخراجات کا بوجھ اٹھاتے اور ہمارے مستقبل کے سنہرے سپنے دیکھتے ہیں، ہمارے لئے اپنا وقار اور صحت تک بھی داؤ پر لگادیتے ہیں، قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتے ہیں اور جن کا ہر لمحہ ہمارے لئے خوشیاں خریدتے گزرتا ہے ……ان عظیم شخصیت سے محبت کے اظہار کے لئے محض ایک دن مختص کیوں کیا جارہا ہے۔
فرض کریں اگر ہمارے والدین ہمارے لئے اپنی محبت کا صرف ایک دن مختص کردیں اور باقی دن نظر انداز کئے رکھیں تو کیا ہم اپنا وجود برقرار رکھ پائیں گے …… تو پھر والدین کے لئے ہی یہ ایک دن کیوں ……؟؟؟ بظاہر فادر، مدر ڈے منانے کے زیادہ حقدار وہ ہیں جن کے والدین حیات ہیں، ہمراہ رہتے ہیں اور انہیں عزت حاصل ہوتی ہے۔ جن خاندانوں میں والدین کو کسی کونے کھدرے میں تنہا چھوڑ دیا جائے …… یا انہیں پوچھنے والا کوئی نہ ہو، وہ معاشرے یقینا فادر ڈے، مدر ڈے جیسے ”دنوں“ کے حقدار نہیں۔