Buy website traffic cheap


ایف بی آرکی جانب سے نیلام کی گئیں 481 لگڑری گاڑیوں کے غائب ہونے کا انکشاف

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کی جانب سے گزشتہ پانچ سال کے دوران دو ہزار سی سی سے زائد کی نیلامی کی گئی 819 نان ڈیوٹی پیڈ و اسمگل شدہ لگڑری گاڑیوں میں سے 481 لگڑری گاڑیوں کے غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

ملک میں کسٹمز حکام اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن حکام کی ملی بھگت سے جعلی دستاویزات و کاغذات کی بنیاد پر بڑی تعداد میں اسمگل شدہ اور نان ڈیوٹی پیڈ لینڈ کروزرز، بی ایم ڈبلیو، مرسڈیز سمیت دوسری لگڑری گاڑیاں رجسٹرڈ ہونے اور بڑی تعداد میں گاڑیوں کے غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس پر جعلی کاغذات پر رجسٹرڈ ہونے والی گاڑیاں بااثر لوگوں کے زیر استعمال ہیں، وفاقی ٹیکس محتسب کے احکامات پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے لگڑری گاڑیوں کی جعلی دستاویز پر رجسٹریشن کی تحقیقات شروع کی تھیں۔

ذرائع کے مطابق ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جعلی کاغذات پر نان ڈیوٹی پیڈ و اسمگل شدہ لگڑری گاڑیوں کی رجسٹریشن کی شکایات پر نوٹس لیتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو معاملے کی تفصیلی چھان بین کرکے 31 جولائی 2021 تک رپورٹ جمع کروانے کی ہدایات جاری کر رکھی تھی، جس پر ایف بی آر نے اپنی ابتدائی رپورٹ وفاقی ٹیکس محتسب کو ارسال کردی ہے، جس میں موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹیز کی جانب سے تعاون نہ کرنے بارے وفاقی ٹیکس محتسب کو آگاہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بار بار ریکارڈ مانگنے کے باوجود متعدد موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹیز ریکارڈ فراہم کرنے سے ہچکچا رہی ہیں۔

موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹیز کی جانب سے جو ریکارڈ موصول ہوا ہے اس ریکارڈ کے ساتھ ڈائریکٹریٹ کسٹمز اینٹلی جننس کی نیلان کردہ گاڑیوں کے ڈیٹا سے کراس میچنگ کی گئی ہے جس میں صرف 338 لگڑری گاڑیاں موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی کے ریکارڈ میں پائی گئی ہیں باقی 481 لگڑری گاڑیاں موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹیز کے ریکارڈ میں موجود نہیں ہیں۔

ڈائریکٹر ہیڈ کوارٹرز محمد طاہر کے دستخطوں سے وفاقی ٹیکس محتسب آفس کو بھجوائی جانیوالی رپورٹ کی ’ایکسپریس‘ کو دستیاب کاپی میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 5 سال کے دوران ملک کے 8 ریجنل ڈائریکٹریٹ کی جانب سے مجموعی طور پر 819 لگڑری گاڑیاں نیلام کی گئی ہیں، ڈائریکٹریٹ کراچی کی جانب سے 123 لگڑری گاڑیاں نیلام کی گئیں جن میں سے 39 لگڑری گاڑیاں موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی کے پاس رجسٹرڈ ہوئیں اور 84 لگڑری گاڑیوں کا موٹر وہیکل رجسٹریشن کے فراہم کردہ ریکارڈ میں نہیں پائی گئی ہیں۔

ڈائریکٹریٹ لاہور کی جانب سے 124 لگڑری گاڑیاں نیلام کی گئیں جن میں سے 49 لگڑری گاڑیاں موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی کے پاس رجسٹرڈ ہوئیں اور 75 لگڑری گاڑیوں کا موٹر وہیکل رجسٹریشن کے فراہم کردہ ریکارڈ میں نہیں پائی گئی ہیں۔ ڈائریکٹریٹ ملتان کی جانب سے 45 لگڑری گاڑیاں نیلام کی گئیں جن میں سے 19 لگڑری گاڑیاں موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی کے پاس رجسٹرڈ ہوئیں اور 26 لگڑری گاڑیوں کا موٹر وہیکل رجسٹریشن کے فراہم کردہ ریکارڈ میں نہیں پائی گئی ہیں۔

ڈائریکٹریٹ پشاور کی جانب سے گزشتہ 5 سال کے دوران 2 ہزار سی سی سے اوپر کی 22 لگڑری گاڑیاں نیلام کی گئیں جن میں سے 14 لگڑری گاڑیاں موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی کے پاس رجسٹرڈ ہوئیں اور 8 لگڑری گاڑیوں کا موٹر وہیکل رجسٹریشن کے فراہم کردہ ریکارڈ میں نہیں پائی گئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ڈائریکٹریٹ کوئٹہ کی جانب سے 319 لگڑری گاڑیاں نیلام کی گئیں جن میں سے صرف 109 لگڑری گاڑیاں موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی کے پاس رجسٹرڈ ہوئیں اور 210 لگڑری گاڑیوں کا موٹر وہیکل رجسٹریشن کے فراہم کردہ ریکارڈ میں نہیں پائی گئیں۔

ڈائریکٹریٹ حیدر آبادکی جانب سے 30 لگڑری گاڑیاں نیلام کی گئیں جن میں سے 6 لگڑری گاڑیاں موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی کے پاس رجسٹرڈ ہوئیں اور 24 لگڑری گاڑیوں کا موٹر وہیکل رجسٹریشن کے فراہم کردہ ریکارڈ میں نہیں پائی گئی ہیں، ڈائریکٹریٹ گوادر کی جانب سے 15 لگڑری گاڑیاں نیلام کی گئیں جن میں سے صرف ایک گاڑی ہی رجسٹر ہوئی اور 14لگڑری گاڑیوں کا موٹر وہیکل رجسٹریشن کے فراہم کردہ ریکارڈ میں نہیں پائی گئی ہیں۔

ڈائریکٹریٹ راولپنڈی نے 141 لگڑری گاڑیاں نیلام کیں جن میں سے 101 رجسٹرڈ ہوئیں اور 40 لگڑری گاڑیوں کا موٹر وہیکل رجسٹریشن کے فراہم کردہ ریکارڈ میں نہیں پائی گئی ہیں۔

دوسری جانب ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے رجسٹرڈ کی جانے والی جن لگڑری گاڑیوں کے ریکارڈ کی ایف بی آر کے ڈیٹا بیبنک سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے نا صرف وہ گاڑیاں ضبط کی جائیں گی بلکہ گاڑیاں رجسٹرڈ کروانے میں ملوث کسٹمز و ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے حکام اور گاڑیوں کے مالکان کے خلاف مقدمات بھی درج ہوں گے اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی اور یہ دیکھا جائے گا کہ اس معاملے میں کون کون ملوث ہے اور اس معاملے کسٹمز اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے جو بھی حکام ملوث ہوئے انکے خلاف بھی کاروائی ہوگی۔