Buy website traffic cheap

mushariah adbi event

کہکشاﺅں کی محفل

انجینئر مظہر پہوڑ
شاعری ایک اَدبی فن ہے جس میں شاعر اپنے احساسات اور خیالات کو ایک مخصوص دُھن اور انداز سے مزین کرتا ہے جو کہ قافیہ اور ردیف کے مخصوص رَبط سے پیدہ ہوتا ہے ، شاعری کی مثال اُس نیکلس کی طرح ہے جو مختلف موتیوں کے پرونے سے بنتا ہے اسی طرح اشعار بھی احساسات اور خیالات کو لفظوں کی شکل میں پرونے سے وجود میں آتے ہیں اس کی بہت سی اقسام ہیں جیسے نظم، غزل ، قطعہ،مسدس، اکائی وغیرہ ، ہر زبان کا ایک اَدب ہوتا ہے اور شاعری اُس اَدب کا حصہ ہوتی ہے اسلام کے ظہور سے قبل شاعری عرب میں بہت مقبول تھی اور اسلام کے ابتدائی دَور میں کافروں کی مہمات کا مقابلہ کرنے کے لیے شاعری ایک اہم ہتھیار کی حیثیت رکھتی تھی شاعری کے لیے حساسیت اور چیزوں کو باریکی سے محسوس کرنا اور اچھی شاعری کے لیے اچھے لفظوں کا چناﺅ اور اُن کو پروُنا لازم ہے۔ جن ستاروں نے اُردو اَدب کے فلک کو اپنی آب تاب سے منور رکھا اُن اٹھارویں صدی کے ستاروں میں امام احمد رضا خان بریلوی، محمد ابراہیم ذوق، مرزا اسد اللہ غالب،میر تقی میر، مومن خان مومن ، داغ دہلوی، الطاف حسین حالی، بہادرشاہ ظفر شامل ہیں، جواردو ادب کے افق پرجگمگاتے رہے۔ اُنیسویں صدی کے چراغ جنہوں نے اَدب کے مےخانے کو روشن رکھا اُن میں حسرت موہانی، شاعر ِ مشرق مفکر ِپاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ ؒ، فیض احمد فیض، احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، حبیب جالب، اد َا جعفری،منیر نیازی،واصف علی واصف، احمد فراز، مظفر وارثی، پروین شاکر اور ڈاکٹر راحت اندوری جیسے شاعر پیدا ہوئے۔ جنہوں نے خون جلا کے اَدب اور شاعری کی شمع کو روشن رکھااور جن کا نام آج بھی اُردو اَدب میں احترام سے لیا جاتا ہے ۔
لکھنے کی حد تک میری شاعری سے واقفیت کوئی تین برس پرانی ہے لیکن شغف بہت دیرینہ ہے۔ اِسی ادب دوستی اور شغف کے تناظر میں چند روز قبل رائٹر ،اینکر پرسن اور ریڈیو براڈکاسٹر محترم اورنگ زیب ملک صاحب کا پی سی ایس آئی آر کے کمیونٹی کلب میں ایک نہیںبلکہ تین مختلف کتب کی رونمائی و پذیرائی کا دعوت نامہ موصول ہوا ۔جن میں ناز بٹ صاحبہ کی کتاب وارفتگی ، ظفر اعوان کا پنجابی شعری مجموعہ کندھاں اُتے گھاء اور راجہ صفدر حسین کا تاریخ نا مہ تاریخ ِ جنجوعہ شامل تھا۔ اُن کا وعوت نامہ میرے لیے باعث ِ فخر تھا اورشمولیت کے لیے کئی بار مجھے یاد بھی کروا چکے تھے ۔ تقریب کی صدارت ڈاکٹر صغرا صدف (سابقہ ڈائریکٹر پلاک) ، مہمان ِ خصوصی قیوم نظامی صاحب (کالم نگار نوائے وقت) اور مبارک علی شاہد صاحب (ڈسٹرکٹ گورنر روٹری انٹرنیشنل) مہمان خصوصی تھے۔ مقرد دن اور وقت پر کلب کمیونٹی سنٹر پہنچا تو اورنگ زیب ملک صاحب نے انتظام کرتے اور بھاگتے ہوئے ویلکم کیا۔ چونکہ فیس بک کے بعد یہ میری اُن سے پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔کلب ہال میں مرد و زَن اور بچوں سمیت کافی اہل ِ ذوق تشریف فرما تھے ،جن کی میزبانی روٹری کلب کے ممبران جن میں بطور خاص ڈاکٹر نورالزمان رفیق ،شاہد ارسال صاحب اور اورنگ زیب ملک صاحب خدمت گزاروں میں پیش پیش تھے ۔ وقت کی پابندی کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے وارفتگی جیسے انمول شاعری مجموعے کی خالق ناز بٹ صاحبہ اور ظفر اعوان صاحب پہلے سے موجود تھے۔ چند منٹ کے توقف کے بعد محفل کے روح ِ رواں اور ریڈیو پاکستان کے پروگرام ایف ایم نائنٹی فائیو پنجاب رنگ کے نامور ہوسٹ محترم اورنگ زیب ملک صاحب نے نظامت کے لیے ڈائیس سنبھالا اور اپنے مخصوص اور اچھوتے انداز سے تقریب میں آئے ہوئے معزز مہمانوں کو وارملی ویلکم کیا ۔ تقریب میں آئے ہوئے معزز مہمانوں میں سے مہمان ِ اعزاز محترم مبارک علی شاہد ،محترمہ ناز بٹ صاحبہ، ظفر اعوان صاحب اور تاریخ جنجوعہ کے مورخ راجہ صفدر حسین صاحب کو مخصوص نشستوں پر تشریف لانے کی درخواست کی ۔ تقریب کی شروعات میں ہی مہمان ِ خصوصی جناب قیوم نظامی صاحب نے بھی جوائن کیا اور اورنگ زیب صاحب نے اُن کو تقریب میں شمولیت پر خوش آمدید کہا ۔ نقیب ِ محفل نے تقریب کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے جناب مظفر علی صاحب کو حمد پڑھنے کے لیے مدعو کیاتو اُنہوں نے دَف اور خوبصورت آواز میں جب کلام ِ اقبال ؒ پڑھا تو تقریب میں موجود سب لوگ جھومنے لگ گئے ۔ تعریف ِ باری تعالی ٰ کے بعد نقیب ِ محفل نے پنجابی فن پارے “کندھاں اُتے گھا ءکے ” کے خالق اور پنجابی و اردو شاعر ظفر اعوان صاحب کو ڈائس پر بلانے سے پہلے اُن کی شخصیت سے متعارف کروایا او ر دیار غیر ڈنمارک میں رہتے ہوئے جنہوں نے اپنی ماں بولی پنجابی کو زندہ رکھا ۔ ا پنی مٹی اور ماں بولی کا قرض تو کوئی بھی ادا نہیں کر سکتا لیکن انہوں نے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی جس کا ثبوت اُن کی شخصیت اور تخلیق کردہ ادب سے واضع جھلکتا ہے ۔ میرے خیال سے ظفر اعوان کی پنجابی شاعری کی کتاب “کندھاں اُتے گھاء” نا پڑھنا یہ پنجابی ادَب کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ظفر اعوان نے تقریب میں “کندھاں اُتے گھاء” سے چند اشعار حاضرین کے خوش گزار کیے تو مہمان خصوصی قیوم نظامی صاحب سمیت سب احباب نے ظفر اعوان عرف ظفر ی کے سنائے گئے کلام کی خوب داد دی ۔
اورنگ زیب صاحب نے وقت کی نزاقت کو دیکھتے ہوئے صدر ِ محفل ڈاکٹر صغرا صدف کو کتابوں اور تقریب کے بارے اپنے تاثرات شئیر کرنے کے لیے زحمت دی تو ڈاکٹر صاحبہ نے راجہ صفدر حسین جنجوعہ کی کتاب تاریخ ِ جنجوعہ ، محترمہ ناز بٹ کے شعری مجموعہ وارفتگی اور ظفر اعوان کی پنجابی شعری فن پارہ کندھاں اُتے گھاء پر بڑے خوبصورت پنجابی انداز میں روشنی ڈالی اور ماں بولی پنجابی زبان کی ختم ہوتی روایات پر تشویش کا اظہار کیا ۔ صدر محفل کے اظہار خیال کے بعد اورنگزیب ملک صاحب نے تمام مہمانوں میں اُن کی ادبی خدمات پر روٹری کلب کی جانب سے یادگاری شیلڈ سووینیئرز پیش کیں۔فوٹو سیشن کے بعد تمام احباب کو کلب میں موجود خوبصورت لائبریری کو وزٹ کروایا گیا جہاں لائبریرین فاطمہ سلیم نے ویلکم کیا اور مہمانوں کو لائبریری کے بارے انفارمیشن بھی مہیا کی ۔جس کی تزین و آرائش روٹری کلب کے ممبران اور اورنگ زیب ملک کی کووشوں کا ثمر ہے۔تقریب کے اختتام پر شرکت کرنے والے احباب کو پرلطف اعشائیہ دیا گیا جہاں کھانے سے لطف اندوز ہوئے اور ساتھ آئے اہل ذوق احباب سے ہلکی پھلکی گپ شپ اور تعارف بھی ہو ا ۔یقینا یہ ایک بہت ہی پروقار تقریب تھی جس کا سہرا اورنگزیب ملک ،ڈاکٹر نورالزاماں رفیق ،شاہد رسال(سیکرٹری جنرلPCSIR)، ایگزیکٹیو ممبر محترم داﺅد قاسم اور روٹری کلب کے ممبران و انتظامیہ کے سر جاتا ہے ۔ اللہ سپانسرز اور انتظامیہ کو کتاب دوستی اور ادب کی ترویج کے لیے کی گئی کاشووںکا اجر عطا فرمائے ۔آمین
“جو کتا ب اور مطالعہ کا ذوق نہیں رکھتا ،اُس کا ذہن نیم تاریک ،بند گلی کی مانند ہوتا ہے جس میں نئے خیالات اور خوابوں کا گزر نہیں ہوتا”