Buy website traffic cheap

مضبوط پاکستان کی بنیادباکردار عوام ہیں ... عمران امین

جی سی یونیورسٹی اُور موجودہ وائس چانسلر

عمران امین
ایک بات یاد رہے کہ نامور اُور کامیاب لوگوں کی اکثریت، یکسانیت کو پسند نہیں کرتی بلکہ ایسی جماعت ہمیشہ بہتری والی تبدیلی پسند کرتی ہے کیونکہ اُن کی زندگی عمل پیہم،جدوجہد اُور مسلسل کاوش سے عبارت ہوتی ہے۔اُُن کے نزدیک ٹھہراﺅ اُور جمود،موت کا دُوسرا نام ہوتا ہے۔زندگی کے بیش قیمت لمحات کے بحر بے کراں سے گوہر یکتا نکالنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں جو تپتے صحراﺅں میں بھی گھنے تناور درخت اُگاتے ہیں۔جیسا کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے ”انسان چاہے تو اُس کی ہمت کے سامنے پہاڑ بھی کنکر ہے،نہ چاہے تو رائی بھی پہاڑ ہے“۔خوش نصیبی کی بات ہے کہ موجودہ مادیت پسندی کے دُور میں بھی پاک سرزمین پر ایسے افراد بکثرت موجود ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کی ذاتی،خانگی اُور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو بھی خُوب اچھے انداز میں نبھایا اُور ساتھ میں دین ،معاشرے اُور انسانیت کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں کے ساتھ بھی بھرپور طریقے سے انصاف کیا۔ایسے ہی لوگوں کی تلاش کے سلسے میںپچھلے دنوں” قلم دوست “کے قلم کاروں کی ایثار رانا کی زیر قیادت پاکستان کی عظیم درسگاہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے31 وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی سے ملاقات ہوئی۔خوش نصیبی کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر اصغر زیدی راوین ہیں اُور اس ادارے کی تاریخ و اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ڈاکٹر اصغر زیدی نے دنیا کے بہترین ادارے آکسفورڈ یونیورسٹی سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ ڈاکٹر صاحب کے مضامین مستندعالمی رسالوں میں باقاعدگی سے چھپتے ہیں اس کے علاوہ پانچ کتابوں کے مصنف بھی ہیںنیزڈاکٹر اصغر زیدی کے لکھے ہوئے پچیس سے زائد مضامین دنیا کی کئی یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ ہیں۔پاکستان آنے سے پہلے پینتیس سال سے ڈاکٹر اصغر زیدی دنیا کے معروف اداروں اُور یونیورسٹیوں سے منسلک رہے جن میںانگلینڈ کی آکسفورڈ یونیورسٹی،لندن سکول آف اکنامکس،University of Southampton ،نیدر لینڈز کیErasmus University اُورTilburg University ،جنوبی کوریا کی Seoul National University اُور چین کی Chinese University of Hong Kong شامل ہیں۔ ملاقات کے لیے دئیے گئے وقت پر تمام اہل قلم جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دفتر پہنچ گئے جہاں ڈاکٹر صاحب قلم دوست کے وفد کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔قلم دوست وفد میں ایثار رانا،خالد بھٹی،ندیم نظر،رابعہ رحمان،اختر حسین سندھو،مبین سلطان،ناصف اعوان اُور راقم شامل تھے ۔ابتدائی تعارف کے بعد وائس چانسلر صاحب نے بتایا کہ بد قسمتی سے اس وقت یہ ادارہ سالانہ تقریباً چار سو ملین خسارے کا شکار ہے جن میں اقربا ءپروری کی بنیاد پر اساتذہ کی تعیناتی، غیر ضروری اخراجات اُورمالی بد عنوانی و بے ضابطگیاں جیسے بڑے اسباب شامل ہیںاُن کی طرف سے خسارے کو کم کرنے کے لیے چند ضروری اقدامات اُٹھائے گئے ہیں ،جیسے ایڈہاک اُور کنٹریکٹ کی بنیاد پر اساتذہ کی تقرری نہیں کی جائے گی،مالی بدعنوانی پر سخت سزائیں ہوں گی اُواخراجات کا استعمال مناسب جگہ پر کیا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ مالی بد عنوانی کو پکڑنا آسان ہے مگر بد قسمتی سے پاکستان میں اکیڈیمک کرپشن بھی بہت عام ہے اگرچہ اس کو پہچاننا اُور اس کا حل مشکل ہے مگر اب اساتذہ کو اپنے فرائض ایمان داری سے سرانجام دینے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں اُور اساتذہ کے لیے مختلف ٹریننگ سیشنز کا انعقاد بھی کیا گیاہے۔وفد میں شامل ایثار رانا نے سوال کیا کہ ایک وقت میں یہ عظیم ادارہ پاکستان کو قومی سطح کے کھلاڑی اُور فنون لطیفہ کے بڑے نام فراہم کرتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ڈاکٹر صاحب نے اس بات کی تصدیق کی اُوربتایا کہ ماضی کی عظیم روایات کے حامل اس ادارے میں کچھ عرصہ سے غیر نصابی سرگرمیاں تعطل کا شکار رہی ہیں مگر اب اُن کو پھر سے شروع کر دیا گیا ہے جن میں ادبی سرگرمیاں کا انعقاد، بزم ادب کی کلاس کا آغاز، کھیلوں کا باقاعدہ انعقاد اُور کھلاڑیوں کو ٹریننگ دینا شامل ہے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آج کی نوجوان نسل دین سے دور ہوتی جارہی ہے اس بات کو محسوس کرتے ہوئے چند سال سے درس قرآن کے رُکے ہوئے سلسلے کو دوبارہ سے شروع کر دیا گیا ہے ۔ انہوں نے دوران گفتگوبتایا کہ COVID-19نے دنیا کو آن لائن رابظہ کی اہمیت سے آگاہی دی ہے اُور خصوصاً پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں” کورونا“ وبا کے دنوں میں آن لائن رابطے کے سلسلے کو بڑھانے پر خاصا کام ہوا ہے۔قلم دوست کے وفد میں شامل رابعہ رحمان کے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کوئی بھی معاشرہ ہو، تعلیم کی تعریف اُور سمت کا تعین ہمیشہ معاشرہ کرتا ہے ،اب یہ فیصلہ معاشرے نے کرنا ہوتا ہے کہ اُس کو صرف ڈگری ہولڈر چاہیے یا پڑھے لکھے اچھے انسان۔انہوں نے دکھ سے کہا کہ بد قسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں دولت کو بنیادی اہمیت حاصل ہو گئی ہے مگر خوش قسمتی سے جی سی یونیورسٹی میںاب تعمیر انسان پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے ۔ڈاکٹر اصغر زیدی جیسی زیرک،محنتی اُور ہمہ جہتی شخصیت کے خیالات سے آگاہی لینے کے بعد قلم دوست احباب اُور محترم داکٹر صاحب نے لنچ کیا ۔روانگی کے وقت ڈاکٹر صاحب نے سب افراد کا شکریہ ادا کیا ۔ ہماری دعا ہے کہ موجودہ حکومت ادارے کی تاریخی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی تشکیل نو پر خصوصی توجہ دے اُور ڈاکٹر اصغر زیدی کو اپنے خوابوؓ ںکی تعبیر حاصل کرنے میں درکارہر ممکن تعاون فراہم کرے۔