Buy website traffic cheap

قمر ریاض،دوحہ قطر
جو عالمی ادبی سلسلہ ملک مصیب الرحمان سے شروع ہوتا ہوا جناب محمد عتیق تک پہنچا اور جسے اپنے حسن انتظام سے ڈاکڑ فرتاش سید کی سربراہی میں جاوید ہمایوں، روئیس ممتاز، فرقان احمد پراچہ، قمر الزمان بھٹی، رضا حسین رضا، عبدالرزاق اور جاوید بھٹی سنبھالتے رہے اب وہ عبید طاہر قاضی جیسے مضبوط منتظم اور سیکرٹری جنرل کے ہاتھوں میں پہنچ چکا ہے ان کے اراکین میں جنہیں میں جانتا ہوں ان میں سانول عباسی، زاہد شریف، مشفق رضا نقوی اور نواز اکرم متحرک اراکین میں شامل ہیں – امین موتی والا اور شوکت علی ناز گو کہ اب بوجوہ اس تنظیم کا حصہ نہیں رہے اور اپنی الگ مصروفیات اور خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
جناب محمد عتیق نے جس خوبصورتی سے مجلس کا تعارف کروایا وہ اپنے آپ میں حوالے کے طور پر ہمیشہ رقم ہوتا رہے گا ان عالمی ایوارڈز اور مشاعروں کی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ ہر سال کسی ایک شخصیت کو بیک وقت ہندوستان اور پاکستان سے منتخب کیا جاتا ہے اور شعرائے کرام کی تعداد بھی پاکستان اور ہندوستان کی کم و بیش یکساں رکھی جاتی ہے اور باقی دنیا بھر سے کل شعرا کو ملا کر 20 سے 25 شعراءکو ہر سال قطر عالمی مشاعرے کے لئے مدعو کیا جاتا ہے جنہیں سننے والوں کی تعداد ہزاروں میں اس ہال کے اندر موجود ہوتی ہے اور پورا سال منتظر ہوتی ہے جہاں یہ مشاعرہ انعقاد پذیر ہونا ہوتا ہے – تمام شعراءکو اعزازی شیلڈز سے نوازا جاتا ہے ایوارڈ حاصل کرنے والوں کو ڈیڑھ لاکھ روپے بطور انعام بھی پیش کئے جاتے ہیں اس سال یہ عالمی ایوارڈ اور اس کی انعامی رقم کے حقدار پاکستان سے ڈاکڑ تحسین فراقی اور ہندوستان سے جناب ف،س اعجاز قرار پائے –
ان عالمی مشاعروں اور سالانہ عالمی اردو ایوارڈ کی بدولت اردو بولنے،سننے اور چاہنے والوں کا قطر میں میلہ سا لگ جاتا ہے میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ دو بار مجھے مجلس کے عالمی مشاعروں کی دعوت ملی اور دنوں بار میں بخوشی اسے اپنا اعزاز سمجھتے ہوئے شریک ہوا جناب محمد عتیق اور فرتاش سید کے علاوہ قطر کے دوستوں کی مجھ سے محبت ناقابل فراموش ہے اس سال پاکستان سے جناب امجد اسلام امجد، جناب ادریس قریشی، پروفیسر تحسین فراقی، جنید آذر، شوکت فہمی، ڈاکڑ عنبرین حسیب عنبر، ڈاکڑ فرتاش سید کے علاوہ ہندوستان سے جناب طرح سنگھ بشر، زبیر تابش، شکیل اعظمی، ف -س اعجاز اور جناب نصرت ظہیر احمد شریک ہوئے جبکہ مختلیف ممالک سے جن شعرا ءکو دعوت دی گئی ان میں ڈاکڑ سید تقی عابدی (کینیڈا)،ڈاکڑ نوشہ اسرار (امریکہ) راقم قمر ریاض(عمان) صداقت ترمذی(کویت)، آصف شفیع (دوحہ) احمد اشفاق (دوحہ) رضا حسین (دوحہ) اور جناب سانول عباسی (دوحہ) شامل تھے ان تمام شعرا ءکی کل تعداد بیس بنتی ہے اتنے بڑے بجٹ پر ہر سال عالمی مشاعرے کروانا بلا شک و شبہ انتہائی بڑی بات ہے اور اس لئے قطر کی پاکستانی و ہندوستانی کمیونٹی بھی مبارکباد کی مستحق ہے جو اس ادبی سلسلے کے لئے ہر سال تعاون کرتے ہیں –
مجھے اس بار کشمیری نوجوان عبید طاہر سے مل کر خوشی ہوئی جن کا تقرر سیکرٹری جنرل کے طور پر ہوا ہے جس اعلی طرح بولتے ہیں فضا میں رس گھول دیتے ہیں اردو اور عربی پر کامل عبور رکھتے ہیں اور اسی کشمیر سے تعلق ہے جسے ہم مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں جہاں کئی دنوں سے کرفیو ہے اور اسی پر ایک نظم سردار چرن سنگھ بشر نے پڑھی اور مشاعرہ لوٹ لیا – عبید طاہر مجلس فروغ اردو ادب میں بہترین اضافہ ہیں-
قطر عالمی مشاعرے میں سب سے زیادہ خوشی مجھے تب ملی جب احسان شاہد بھائی نے اچانک قطر پہنچ کر مجھے سرپرائز دیا روح تک سرشرار ہو گئی کہ احسان شاہد جس محبتی شخصیت کا نام ہے ان جیسی شخصیات اب بہت ہی کم دنیا میں باقی ہیں پھر ایک دن احسان شاہد کے ساتھ گزرا جس کی کہانی پھر سہی مگر یادیں بے شمار ہیں
آصف شفیع اور نبیل عزیز مجھے ہمیشہ عزیز رہتے ہیں عدیل اکبر بھائی بہت محبت سے ملے اور کئی جگہ ساتھ لے کر گئے رابطہ بھی کرتے رہے اور بہت سی دعائیں بھی دی زاہد شریف نے قطر ائیرپورٹ پر استقبال کیا جنید آذر بھائی کے ساتھ بیٹھک میں بہت سی باتیں ہوئی جو صیغہ راز میں ہیں – جناب امجد اسلام امجد نے بہت محبت سے نوازا اور اپنی کتاب بھی تحفے میں دی –