Buy website traffic cheap


داتا گنج بخشؒ کا 977واں سالانہ عرس مبارک

ایچ آئی اے ہاشمی
تصاویر: اصغر بھٹی
سیدناعلی بن عثمان ہجویری داتاگنج بخشؒ کے وصال کے نو سو چھہتر سال کے بعد بھی خلق خدا ان کی طرف کھینچی چلی آتی ہے اور ان کا آستانہ آج بھی چوبیس گھنٹے اور تین سو ساٹھ دن عقیدت مندوں میں فیض کے خزانے لُٹا رہا ہے ،آج 20اکتوبر بروز اتواران کے سالانہ عرس مبارک کا تیسرااور آخری دن ہے اور عقیدت مندوں کی جوق در جوق آمداور چار سو گونجتی روح پرورز درود و سلام و تلاوت قرآن پاک کی صدائیں ایمان افروز سماں باندھ رہی ہیں۔محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام عرس کی تقریبات کا باقاعدہ آغاز18اکتوبر بروزجمعہ کو رسم چادرپوشی سے کیا گیا ۔ تقریب میں وزیر ہاﺅسنگ محمود الرشید،صمصام بخاری،چئیرمین کمیٹی نذیر چوہان،ڈ ڈائریکٹر جنرل اوقاف طاہر رضا بخاری،ایڈمنسٹریٹر اوقاف سکندر ذوالقرنین و دیگر اوقاف افسران نے شرکت کی۔ تمام حاضرین نے ملک و ملت کی ترقی کے لئے دعا بھی کی۔ بعد ازاں وزیر ہاﺅسنگ محمود الرشید نے ڈائریکٹر جنرل اوقاف طاہر رضا بخاری کی کتاب دارالسالکین کی رونمائی بھی کی۔اس موقع پرحسبِ روایت سبیل دودھ کا افتتاح بھی کیا گیا۔۔
عرس کے موقع پر دینی اور روحانی محافل اور علمی نشستوں کے انعقاد کے لےے سینکڑوں مشائخ، سجادگان، اکابر علماءاور مذہبی سکالرز ، قراءاور نعت خواں حضرات کو مدعو کیا گیا۔جن میں وطن عزیز کی 200سے زائد روحانی اور خانقاہی شخصیات ، معروف آستانوں کے سجادگان کے علاوہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی خانقاہ کے سجادہ نشین سید بلال چشتی ، خواجہ فرید الدین فخری سجادہ نشین اورنگ آباد شریف (انڈیا) اور پیر سید دیوان طاہرنظامی سجادہ نشین درگاہ خواجہ نظام الدین محبوب الہٰی (انڈیا) بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔مدارس دینیہ اور جامعات کے درمیان مقابلہ حُسن قرآت و مقابلہ حُسن تقریر داتا دربار کمپلیکس میں منعقد کیا گیا۔ حضرت داتا گنج بخش کے عرس مبارک کے موقع پرسہ روزہ عالمی کانفرنس 16تا 18 اکتو بر بعنوان :”بر صغیر میں اسلامی تہذیب کی تشکیل میں علی ہجویر کا کردار ” کا اہتمام بھی کیا۔ اس میں وطنِ عزیز پاکستان کے علاوہ ، معاصر دنیا ترکی،مدینہ منورہ،لندن، افغانستان ، ایران، یمن، تیونس، برطانیہ، نیویارک اور عراق کی معروف دانشگاہوں اور علمی حلقوںکی معتبر شخصیات تشریف فرما ہوئیں۔مشاعرہ منقبت کا اہتمام جامع مسجد داتا دربار میں کیا گیا، جس میں شعراءکرام حضرت محمد ﷺ کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت اور حضرت داتا گنج بخشؒ کے حضور عقیدت کا نذرانہ پیش کیا فضاﺅں کو معطر کر دیا۔ جامع مسجد دربار حضرت داتا گنج بخشؒ میں علمی و روحانی اجتماعات کے انعقاد کے علاوہ دو روزہ محافل سماع کا بھی خصوصی اہتمام بھی مرکزنگاہ رہا۔ ۔
قومی محفلِ حُسن قرا¿ت کی صدارت صاحبزادہ پیر سیّد بلال شاہ چشتی سجادہ نشین آستانہ عالیہ خواجہ اجمیر شریف انڈیا ؒ نے فرمائی جبکہ ملک سے معروف قراءحضرات نے تلاوت قرآن پاک کی سعادت حاصل کی۔ زائرین نے قرآن پاک کی تلاوت سے اپنے قلوب ازہان کو منور کیا ۔ جبکہ بعد از نمازِ عشا ءقومی محفل نعت انعقاد پذیر ہوئی جس میں معروف نعت خواں حضرات نے حضور ﷺ کی بار گاہ میں ہدیہ نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔
وزیر اوقاف پنجاب صاحبزادہ سیّدسعید ا لحسن شاہ اور ڈائریکٹرجنرل اوقاف پنجاب ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے”سہ روزہ عالمی کانفرنس” کے موقع پراپنے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حضرت داتا گنج بخش ؒ نے دلوں کی دنیا کو فتح کیا ۔قلبی دنیا میں انقلاب پیدا کیا اورآج جب برصغیر میں توحید کا غلبہ ہے ،بھائی چارہ اور رواداری اور ماحول ہے ، اُسوئہ رسول ﷺ کے رنگ میں رنگا ہوا معاشرہ اسلامی تہذیب کا نقشہ پیش کررہاہے تو یہ اسی مرد قلندر کی کاوش ہے ۔آپؒ نے خواہشات کو شریعت کے تابع کیا ۔تصوف کا صحیح نقشہ پیش کیا اور اسلام کا اصلی چہرہ لوگوں کو دکھایا ۔معروف مذہبی سکالر پروفیسر رفیق احمد اخترنے کلید ی مقالہ پیش کیا ،جبکہ ، ڈاکٹرحسین محی الدین قادری ،ڈاکٹر ظہور احمد اظہر ،کرنل (ر) سیّد احمدندیم قادری ، ڈاکٹر نعیم انو ر الازہری ، ڈاکٹر علی اکبر الازہری ، ڈاکٹر سعید احمد سعیدی ، ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس نے مقالات پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کی سعی جمیلہ سے ہندوستان میں چھوت چھات ،طبقاتی امتیاز اور توھم پرستی کا خاتمہ ہوا، اور آپ نے ایک پُر امن ،پرُسکون اور محبت ومودت سے بھر پور معاشرے کی بنیاد رکھی ،” توھم پرستی” جب تک جوگی کو دودھ پیش نہ کیا جائے، دودہ کے خون بننے کا خطرہ رہتا ہے ۔ آپ ؒ نے ا س جہالت پر مبنی سوچ کو ختم کرکے لوگو ں کو اپنے رب پر یقین کامل کا درس دیا اور وہی لوگ جوخودراہِ راست پر نہ تھے ، دوسرے کے ہادی بن گئے، جس کی واضح مثال حضرت شیخ ہندیؒ اوران کی اولاد کی ہے۔
محفل سماع کی تقریب کے موقع پر صوبائی وزیر اوقاف سید سعید الحسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اولیائے کرام نے اسلامی تعلیمات کو مکمل طورپر احکامِ شریعت کے نہ صرف تابع قراردیا بلکہ تصوف کو شریعت کا امین اور نگہبان بنا کر پیش کیا اور یوں برصغیر میں ایک ایسے اسلامی مکتبِ تصوف کی بنیاد رکھی جِس کی بلندیوں پر ہمیشہ شریعت و طریقت کا پرچم لہراتا رہے گا۔ صو فیائے کرام نے روادارانہ فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی،وہ اخوت،بھائی چارے،انسان دوستی،ایثار و محبت جیسے جذبوں سے آراستہ ہے ۔ان کے فکر و عمل کا یہ فیضان پورے خطے کو اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منورکر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمہ کے فروغ اور انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے عوامل کی بیخ کنی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان اولیائے کرام کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا کر ان پر عمل پیرا ہوں۔صوفیائے کرام امن کے علمبر دار اور انسان دوستی کے امین ہیں۔ان بزرگان دین کی در گاہیں آج بھی ظاہری و باطنی علوم کے عظیم مراکز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ان بزرگان دین کی تعلیمات کو اپنا کر ہم دوبارہ دنیا بھر میں اسلام کا پرچم بلند کر سکتے ہیں۔ پر امن بقائے باہمی کے قیام اور روادارانہ فلاحی معاشرے کے قیام کے لئے صوفیائے کرام کی تعلیمات کی ترویج وقت کی اہم ضرورت اور خدمات مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔اس موقع پرڈائریکٹر جنرل اوقاف طاہر رضا بخاری ،چئیرمین کمیٹی نذیر احمد چوہان کے علا وہ دیگر افسران بھی موجود تھے ۔
بین المدارس و جامعات مقابلہ حُسن قرا¿ت و تقریر میں مختلف جامعات اور مدارس کے کثیر طلبہ نے شرکت کی۔ مقابلہ حُسن قرا¿ت میں جامعہ غوثیہ رضویہ گلبرگ کے غلام مجتبیٰ نے اوّل ، جامعہ ہجویریہ داتاؒ دربار کے محمد اسد نے دوسری اور جامعہ جلالیہ رضویہ تاج باغ لاہور کے جواد احمد نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ جبکہ حُسن تقریر کے مقابلہ میں جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد کے احمد شیر ولدنے اوّل ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سیّدمحمد علی حیدر بخاری نے دوسر ی اور جامعہ ہجویریہ داتاؒ دربار کے سمیر مزمل نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔پوزیشن حاصل کرنے والے طلباءکو اعزازی شیلڈ اور انعامات دئیے گئے ۔ صاحبزادہ سیّد سعید الحسن شاہ وزیر اوقاف پنجاب اور ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے کہا کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں ، ان کی خدمات لائقِ تحسین ہے ، مدرسہ ایجوکیشن کو جدید عصری علوم سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے لیے حکومت اور مدرسہ ایجوکیشن کی لیڈر شپ کی مشترکہ کوششیں قابلِ تحسین ہیں ۔اس موقع پرخطیب جامع مسجد داتاؒ دربار مفتی محمدرمضان سیالوی پرنسپل جامعہ ہجویریہ داتاؒ دربار صاحبزادہ بدر الزمان قادری سمیت اعلیٰ دینی وروحانی شخصیات نے شرکت کی ۔

کانفرنس کے مندوبین اور اکابر علمی شخصیات اور ہجویریات کے بین الاقوامی ماہرین حضرت داتا گنج بخشؒ کے احوال وافکار اور سیرت و کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج اُمّتِ مُسلمہ ہر طرف سے، جس نوعیت کے مصائب ومشکلات اور تذبذب وتشکیک کا شکار ہے، تو ان حالات میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے حیات بخش فرمودات اور اُن انقلاب آفرین تعلیمات سے روشنی حاصل کی جائے، جو زندگی کو عمل ، حرکت اور جُہدِ مسلسل سے مزّین کرنے اور ایک روشن اوربلند نصب العین سے منوّر کرنے کا پیغام دے رہی ہے۔ اس سہ روزہ عالمی کانفرنس، جس میں وطنِ عزیز پاکستان کے معروف ومعتبر سکالرز اور ہجویریات کے ماہرین اور معاصر اسلامی دنیا کے محققین پوری دردمندی اور دلسوزی کے ساتھ اس حقیقت کے ابلاغ پر متفق ہیں کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے پیغام کی اس حقیقی روح اور حیات بخش افکار اور تعلیمات کو عام کیا جائے، جن کو حکیم الامت حضرت اقبال جیسی عبقری شخصیت نے اپنے فلسفے کی اساس اور فکر کی بنیاد بنا کر مخالف قوتوں سے گریز کی بجائے، ان سے نبرد آزما ہو کر انہیں مُسخّر کرنے کی تعلیم دی۔۔۔ کہ یہی انسانی زندگی کی رمزِ بقا اور اساسِ حیات ہے۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ کی زندگی اسلامی سیرت کا ایسا عمدہ نمونہ تھی جس میں کسبِ علم، تہذیب نفس، تبلیغ اسلام اور اصلاح معاشرہ جیسے عمدہ محاسن اور اعلیٰ مقاصد نہایت آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہیں، آپ نے آذر بائیجان ، خراسان، ترکستان، شام ، عراق ، خوارستان، گرگان، فارس جیسے سنگلاخ اور دور اُفتادہ علاقوں کے سفر کر کے تحصیلِ علم ، اکتسابِ فیض اور حصول مقصد کے لےے،سخت کوشی، محنت، ریاضت،اخلاص،لگن اور توجہ جیسے بنیادی انسانی خصائص کو بروئے کار لانے کے عملی مظاہر دنیا کے سامنے پیش کئے۔
برصغیر ہندوستان میں جن لوگوں نے محض اسلامی تعلیمات اور اپنی زندگیوں کے پاک نمونے پیش کر کے تبلیغ اسلام کا حق ادا کیا اور جن کے فیض سے لاکھوں انسان بہ رضا و رغبت حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ان میں داتا گنج بخش کا نام بہت ممتا زہے ۔انہوں نے کہا کہ آپ ؒ نے ساری زندگی حصول علم اور فروغ علم میں گزاری،حضرت کے نزدیک کامیاب اور اچھی زندگی گزارنے کے لئے علم اور عمل دونوں یکساں ضروری ہیں ، آپ تعلیمات سے پتا لگتا ہے کہ آپ کے نزدیک جو علم کو عمل پر فضیلت دیتا ہے وہ اسی طرح غلطی پر ہے جس عمل کوعلم پر فضلیت دینے والا ۔ عالمی کانفرنس کے شرکاءنے اس امر کا مطالبہ بھی کیا کہ کشف المحجوب سمیت اُمہات کتبِ تصوّف کو دینی درسیات کا حصّہ بنایا جائے، جبکہ رسمی نصاب تعلیم میں حضرت داتا گنج بخشؒ کی حیات بخش تعلیمات کو شامل کیا جائے۔