Buy website traffic cheap


میاں بیوی کے نا خوش گوار حالات

ابتدائی حل طلاق نہیں، اختلاف کے اسباب ڈھونڈنا اور اُسکے روکنا ہے
زین الاسلام قاسمی
ماقبل میں یہ بات وضاحت کے ساتھ آچکی ہے کہ نکاح ایک دائمی رشتہ کا نام ہے، اسلام کا اصل منشا اس رشتہ کو باقی اور قائم رکھنا ہے؛ اسی لیے بلاضرورت اس رشتہ کو توڑنے کی سخت مذمت بیان کی جاچکی ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بسا اوقات میاں بیوی کے درمیان حالات خوش گوار نہیں رہتے، آپسی نا اتفاقیاں پیدا ہوجاتی ہیں، دونوں میں نبھاو مشکل ہوتا ہے، ایسی صورت میں بھی اِسلام نے جذبات سے مغلوب ہوکر جلد بازی میں فوراً ہی اس پاکیزہ رشتہ کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دی؛ بلکہ میاں بیوی دونوں کو مکلف بنایاکہ وہ حتیٰ الامکان اس بندھن کو ٹوٹنے سے بچائیں؛ چنانچہ عورت کی طرف سے نافرمانی کی صورت میں مردوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے:
سورة النساءمیں آپسی خلفشار اور انتشار کو ختم کرنے کے تین طریقے بیان کیے ہیں:
(۱) اگر عورت کی نافرمانی کا خطرہ ہو، تو حکمت اور نرمی کے ساتھ پہلے اُس کو سمجھانے کی کوشش کی جائے۔
(۲) اگر سمجھانا موثر نہ ہو، تو عارضی طور پر اُس کا بستر الگ کر دیا جائے۔
(۳) اگر دوسری صورت بھی مفید ثابت نہ ہو اور عورت اپنی عادت پر قائم رہے، تو کچھ زجر و توبیخ اور ہلکے درجہ کی سرزنش سے کام لیا جائے۔
اور مردوں کی طرف سے کسی قسم کی بد سلوکی کے وقت عورتوں کو یہ ہدایت ہے:
ترجمہ: ”کسی عورت کو اگر اپنے شوہر کی بد سلوکی سے ڈر یا اُس کی بے اعتنائی سے شکایت ہو، تو میاں بیوی کے لیے اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ وہ آپس میں ایک خاص طور پر صلح کر لیں“(سورة النساء)
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں یعنی عورت اگر ایسے شوہر کے پاس رہنا چاہے جو پورے حقوق ادا کرنا نہیں چاہتا اور اس لیے اس کو چھوڑنا چاہتا ہے تو عورت کو جائز ہے کہ اپنے کچھ حقوق چھوڑدے، مثلاً نان ونفقہ معاف کردے یا مقدار کم کردے؛ تاکہ وہ چھوڑے نہیں اور شوہر کو بھی جائز ہے کہ اس معافی کو قبول کرلے۔
اگر اس سے بھی معاملہ حل نہ ہو اور خدانخواستہ آپس کے تعلقات بہت ہی خراب ہوجائیں، پھر بھی شریعت نے رشتہ? نکاح کو توڑنے کی اجازت نہیں دی؛ بلکہ یہ حکم دیا کہ میاں بیوی دونوں اپنی طرف سے ایک ایک ایسا حَکَم (پنچ) اور ثالث مقرر کر لیں،جو مخلص اور خیر خواہ ہوں، جن کا مقصد اختلاف کو ختم کرانا ہو؛

 مذکورہ تفصیل سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ میاں بیوی کے درمیان نا اتفاقی اور نا خوش گوار حالات کے مسئلہ کا ابتدائی حل طلاق دینا نہیں ہے؛ بلکہ اختلاف کے اسباب کو تلاش کر کے اُس پر روک لگانا ہے۔