
نظریہ فرشوں کا ٹھکانہ !!
بیاں در بیاں : عدنان عالم
نظریے اور سیاست کی منڈی لگ رہی ہے۔بکے گا وہی جو مضبوط اور طاقتورہو گا کسی بھی صورت ایمان فروشی میں بے ایمانی نہیں کرے گا۔یہ بکنے کی سہولت اسے چکا چوند مستقبل نے نہیں دی، بلکہ یہ ہمت اسے ووٹر کی اس کمزوری نے دی ہے جو وہ اپنا رائے دہی استعمال کرتے ہوئے بیچ دیتا ہے۔ضمیر فروشی کا آغا زوہی سے ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مختلف ادوار میں رائے دہندہ یعنی ووٹر اور امید وار کے مختلف معیار رہے ہیں۔ اس معیار کا تعلق بنیادی طور پر معاشرتی حالت سے رہاا۔ایک زمانے میں امیدوار کیلئے ضروری تھاکہ وہ طاقتورہو۔۔۔۔اتنا طاقت ور کہ نہ صرف اپنے معاشرے میں دوسروںپر عسکری برتری حاصل کر سکے بلکہ دوسرے گروہوں کے تسلط سے بھی آزاد رہے۔ا میدوار تحریری کاغذات نامزدگی داخل نہیں کرتا تھا۔اس کی طاقت جو ساتھیوں کے بل بوتے پر قائم ہوتی تھی،خودبخو امیدوار کیلئے راہ ہموار کر دیتی تھی۔طاقت کی علامت شخص ایوان اقتدار میں داخل ہو جاتا تھا۔اس کی زبان سے نکلا ہوا لفظ اور فیصلہ حرف آخر ہوتا تھا۔وہ جسے چاہتاتھا اقتدار میں شریک کر لیتا تھااور جسے چاہتا تھا نہ صرف اقتدار بلکہ زندگی کی حدود سے بھی باہر کر دیتا تھا۔ امید وار وہی شخص ہوتا تھا جو اپنی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار حاصل کر سکتا تھا ۔ایک دور ایسا آیا کہ ایک سربراہ کے بعد اس کی اولاد سربراہ بننے لگی ، لیکن کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ اقتدار کے امید وار ایک سے زیادہ ہوتے۔ تب بھی طاقت ہی فیصلہ کرتی کہ کون نیا صاِحب اقتدار ہوگا ©© کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ سربراہ کی زیادتیوں سے تنگ آکر لوگ آپس میں صلاح مشورہ کرتے کِسی ایک کو اپنا قائد منتخب کر لیتے اور اس کی سربراہی میں بغاوت کر دیتے ۔اگر حالات ساتھ دیتے تو منتخب قائداقتدار میں آجاتا ورنہ وہ اور ا©س کے دوٹر قتل کر دیئے جاتے ۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ کسی قریبی گروہ کے سربراہ کو حملے کی دعوت دی جاتی اس طرح اقتدار کے لیے جنگ ہوتی اور جیتنے والے کا دائرہ اقتدار وسیع ہو جاتا۔ جنگ و جدل سے تنگ آکر انسان نے امن پسندی اختیار کی تو قبائل کے سردار وجود میں آگئے ان کا اقتدار بھی عام طورپر موروثی ہوتا تھا تا ہم یہ لوگ اپنی مرضی سے سربراہ منتخب کرتے تھے اور جب چاہتے اسے معزول یا قتل کر دیتے ۔سربراہ کے انتخاب کا حق صرف انہیں حاصل تھا ۔عام آدمی کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ بعض گروہوں میں مخصوص لوگوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا اور بعض مخصوص لوگ ہی اقتدار کے امیدوار ہو سکتے تھے۔ان میں سے خاص طور پر قدیم ہندوستان کا معاشرہ قابلِ ذکر ہے جس میں شود ر کونہ تو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا اور نہ ہی اقتدار کے لیے امید وار بننے کا ۔اس معاشرہ میں قیادت مذہب کے نام پر ہوتی تھی اور برہمن سیاسی سربراہ ہوتا تھا۔بادشاہت ،اشرافیہ،آمریت اور جمہوریت ،معاشرے کے مختلف سیاسی نظام رہے ہیں ۔بادشاہت میں تمام اختیارات بادشاہ کے پاس ہوتے ۔وہ موروثی صاحب ِ اقتدار ہوتا تھا ، آمریت میں ایک شخص اپنی پارٹی کی بنیاد پرتمام اختیارات کامالک ہوتا ۔آمریت ووٹ کے ذریعے بھی آتی ہے اور انقلاب کے ذریعے بھی۔اشرافیہ طرزِ حکومت ہمیں قدیم یونان میں ملتا ہے جس میں شرفاءکو کلیدی عہدے سوپنے جاتے تھے ، ان شرفاءاور دانشوروںکا تعین برسر اقتدار طبقہ کرتا تھاجو خود بھی انہی طبقوں سے تعلق رکھتے تھے ،ان لوگوں کا خیال تھا کہ عام آدمی میںصحیح امید وار کو پہچاننے اور امور مملکت چلانے کی اہلیت نہیں ہوتی۔اسلام کا سورج طلوع ہوا تو انسان نے اپنا صحیح روپ دیکھا۔اسلام نے انسانی تاریخ میں پہلی بار جمہوریت رائج کی حضرت محمد مصطفےٰﷺ اس فانی دنیا سے تشریف لے گئے تو امت کو پہلی بار امور ِ مملکت چلانے کا موقع ملا ۔رسول اکرم ﷺ نے طرزِ حکومت اور طریق اِنتخاب کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی تھی ، یہ فیصلہ حالات اور امت کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا ، البتہ قرآن مجید میں وہ بنیادی اصول اور احکامات موجود تھے جن کی اساس پر اسلامی سیاسی نظام استوار ہونا تھا۔خلفائے راشدین کے انتخاب سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ صرف چند مخصوص افراد بیعت نہیں کرتے تھے بلکہ عام بیعت ہوتی تھی ۔یہی وجہ تھی کہ عام آدمی کو حق دیا گیا تھا کہ وہ خلیفہ کا احتساب کر سکے۔گویا اس طرح امید وار کے لئے شرائط نافذ کر دی گئی ہیں ، اس امید وار کے لیے جس کے حوالے امانتیں (ووٹ) کی جائیں گی ،ووٹر کے لیے کوئی شرط نہیں ۔اسلام نے جمہوریت کا سبق ہی اس طرح دیا کہ نیک تو نیک گناہ گار بھی ،سربراہ ِ مملکت کی صداقت اور امانت کی تصدیق کریں ۔اب ریاست اور عوام کے درمیان انتخاب کا راستہ بہترین معاشرے کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس کے لئے رائے دہندہ ہی وہ اصل کردار ہے جس نے اقتدار صحیح ہاتھوں میں منتقل کرنا ہے ۔جہاں تک رائے دہندہ کے فرض کا تعلق ہے تواسے کہا گیاہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے ” امانتیں ،اہلِ امانت کے حوالے کر دو“ یہاں بھی شرط موجود ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اور اس کے بعد صاحبِ امر کی اطاعت کرو بشر طیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے ۔
قرآن مجید میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ اگر صاحب امر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کرے ۔تو اس کی اطاعت لازم نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اور تو اطاعت نہ کر کسی ایسے شخص کی جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کیا ہے اور جس کا کام حد سے گزرا ہوا ہے۔(الکہف ۸۴)
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اہلیت کا معیار اس کے لیے مقرر کیا گیا ہے جسے امانتیں سونپی جائیں گی ،امانت سپرد کرنے والے کے لئے نہیں ۔اگر امین اس امانت میں خیانت کرتا ہے تو اسے معزول کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے ۔جہاں تک متقی امین کے تلاش کرنے کا تعلق ہے ،دنیا کبھی بھی نیک بندوں سے خالی نہیں رہی ۔اس کے باوجود اگر لوگ کسی ایسے شخص کو امین بنانا چاہتے ہیں جو غلط کار ہے ،تب وہی لوگ اس کی غلط کاریوں کا نشانہ بنیں گے۔
سینٹ انتخابات سے قبل امیدوراروں کا انتخاب کرنے والے اور ان امیدوار اپنے ٹھکانے کا فیصلہ کر لیں۔ایمان فروشی اور امانت میں خیانت پوشیدہ نہیں رہتی ،ہر دور میں اسے مفاداتی ٹولے بے نقاب کرنے میں پیش پیش رہے ۔
عدنان عالم
adnanalam15174@gmail.com