Buy website traffic cheap

incomplete love

ادھوری ملاقات کے ساتھ کیا محبت بھی ادھوری تھی

تحریر:علینہ ارشد
وہ میرے سامنے بیٹھی مجھ سے محبت کے موضوع پر بحث کر رہی تھی اسکا ماننا تھا کہ وہ میرا ساتھ دے سکتی ہے میرے ساتھ چل سکتی ہے مگر مجھ سے محبت نہیں کر سکتی.
ایسا پہلی بار نہیں بہت بار ہوا تھا کہ وہ اس بات کا اعتراف کر چکی تھی کہ اسے مجھ سے محبت نہیں ہے.
مگر ہر بار اسکی آنکھیں اسکے الفاظ کا ساتھ نہیں دیتی تھیں.
میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ اس بات کو قبول نہیں کر پا رہی ہے کہ اسکی زندگی میں کوئی آ سکتا ہے مگر میں خاموش تھا صرف اسکو سننا چاہتا تھا اسکی تصیح کرنا چاہتا تھا مگر بے سود تھا. کیونکہ وہ پاگل لڑکی خود کے اندر سے نا واقف تھی. اسے کیا خبر محبت ایسی حالت کا نام ہے جسکو ہم الفاظ میں بیان کرنا بھی چاہیں تو نا ممکن ہے جیسے ہم بھوک کو بیان نہیں کر سکتے مگر ہر شخص بھوک سے آشنا ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ کیا کیفیت ہوتی ہے دل کی کیا حالت ہوتی ہے، وہ کھانے کی تلاش میں رہتا ہے، اسکو حاصل کرنے کے لئیے تگودو کرتا ہے. کسی کو پیاس لگی ہو یا درد ہو تو کسی ریاضی کے فارمولوں کی طرح وہ اسے بیان نہیں کر سکتا. محبت تو تقاضا کرتی ہے کہ جو محبوب کو پسند ہو اسے پسند کر لیا جائے اسے بھی نہیں خبر تھی کہ میں نے اسکے ساتھ ساتھ اسکی محبت کو بھی پسند کیا تھا. وہ نہیں جانتی تھی کہ میری زندگی کا سب سے قیمتی ہیرا ہے وہ. میں نے اسے ریت کی طرح ہاتھ پر رکھا ہے دبایا نہیں کیونکہ جانتا ہوں دباں گا تو ہاتھ سے نکل جاے گی ریت پھسل جائے گی. پر اسے کیا معلوم کہ پھر میرے ہاتھ خالی رہ جائیں گے.
آدمی جس سے محبت کرنا چاہتا ہے اس سے قریب ہونا چاہتا ہے اسے جب بھی موقع مل جائے اسکے قریب ہونے کا اسکے گلی کوچے میں جانے کا وہ جاتا ہے.
مگر سنو اسکے بعد اگر دو چیزوں میں مقابلہ آ جاے تو انسان اسکو ترجیح دیتا ہے جس سے اسے زیادہ محبت ہو. محبت کی کوئی شکل نہیں ہوتی اسکی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں ان میں مقابلہ اور مسابقت بھی ہوتی ہے جو زیادہ گہری ہوتی ہے وہ جیت جاتی ہے. آدمی بظاہر کچھ بھی کہہ لے لیکن وقت، توجہ اور ترجیحات بتا دیتیں ہیں کہ کس سے زیادہ محبت ہے.
دو طرح کی ہوتی ہے محبت ایک طبعی محبت جو کسی چیز کو دیکھ کر ہوتی ہے، یہ محبت انسان کی طبیعت میں ڈال دی گئی ہے. دوسری عقلی محبت جو آدمی سوچ سمجھ کر کرتا ہے کسی کا کمال دیکھتا ہے، کسی کا جمال دیکھتا ہے اور کسی کا اپنے اوپر احسان.
تم جانتی ہو میری محبت کونسی ہے. میں بے لوث محبت کرتا ہوں تم سے، تمھیں جو پسند ہے وہ کرو میں ساتھ کھڑا ہوں تمھارے پر خود کو پہچاننے میں دیر مت کرو.
یہ کہہ کر میں صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا. اسکی آنکھوں میں کچھ جذبات تھے جو وہ کہنا چاہتی تھی مگر اسے کسی رشتے کی ڈور نے باندھ رکھا تھا جس سے وہ خود بھی آزادی نہیں چاہتی تھی.
میں نے اک آخری لمحے کو اسکا ہاتھ پکڑا اور ایک شعر سنانے لگا
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل.
غزل بھی وہ جو کسی کو کبھی سنائی نہ تھی
دوسرا مصرع اسنے مکمل کیا اور میں خاموش اور بوجھل قدموں سے اس کے گھر سے نکل آیا.
مگر وہ ابھی تک دروازے میں کھڑی مجھے جاتا دیکھ رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا اسے مجھ سے محبت نہیں تھی……