Buy website traffic cheap


دھرتی ماں کا عظیم بیٹا

ہر ملک کے اندر کوئی نہ کوئی ایسا لیڈر ضرور ہوتا ہے جو اپنی دھرتی ماں کیلیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔اور ایسا انسان بچپن سے ہی یہ طے کر لیتا ہے کہ وہ اس ملک کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردار ادا کرے گا۔اسے اس چیز کا لالچ نہیں ہوتا کہ وہ اقتداد میں آئے یا اسے کوئی بڑا عہدہ ملے بلکہ وہ بغیر کسی غرض کے آگے بڑھتا ہے،وہ بچپن سے ہی یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ اس کا ملک کتنے پچیدہ مسائل میں الجھا ہوا ہے،وہ خواب دیکھتا ہے اور سوچتا رہتا ہے کہ وہ کیسے اپنے ملک کو ان مسائل سے نجات دلائے۔
میں بات کر رہی ہوں چئیر مین تحریک جوانان پاکستا ن و کشمیر محمد عبداللہ حمید گل صاحب کی جو کہ سابقہ جنرل آئی ایس آئی حمیدگل کے صاحبزادے ہیں۔اس تحریک کی بنیاد ان کے والد صاحب نے رکھی تھی۔اور کیا ہی خوبصورت نام رکھا گیا اس تحریک کا یعنی کہ یہ صرف پاکستان کے نوجوانوں کی ہی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ ساتھ ساتھ کشمیر کو بھی سپورٹ کر رہی ہے۔میں جو کہ ایک کالم نگار سوشل ورکر اور سٹوڈینٹ ہوں۔میں ہمیشہ سے پی ٹی آئی کی سپورٹر رہی عمران خان صاحب مجھے ایک عظیم لیڈر لگے اور ایک فین ہونے کے ناطے میں نے ان کو بھرپور سپورٹ کیا۔لیکن خان صاحب کا جو امیج میرے مائنڈ میں بنا تھا وہ آج دفن ہو چکا۔الیکشن سے پہلے وہ سچ میں ایک عظیم لیڈر تھے سب کی طرح میں نے بھی ان پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا ووٹ ان کی نظر کیا۔لیکن جیسے ہی وہ اقتدار میں آئے ان کا نظریہ زمین بوس ہو گیا موجودہ سیاست میں کہیں بھی ہمیں وہ عمران خان نظر نہیں آ رہا جو ہم نے دو سال پہلے مختلف جلسوں میں بڑے بڑے دعوے کرتے ہوئےدیکھا تھا۔یہ تو بات ہو گئی خان صاحب کی اب میں آتی ہوں اس شخص کی طرف جس کی سوچ،فکر اور نظریے نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کو فالو کروں۔
آئیے آپ سے شئیر کرتی ہوں کہ کیسے چئر مین عبداللہ حمید گل صاحب میرے پسندیدہ لیڈر بن کر سامنے آئےاور ان تک میری پہنچ کیسے ممکن ہوئی۔ایک دن ٹویٹر اکاونٹ کھولا سامنے بہت سے ٹویٹ تھے کہ اچانک میری نظر عبداللہ گل صاحب کے ٹویٹ پر پڑی۔جیسے ہی اس ٹویٹ کو پڑھا تو اس نے میری سوچ کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔میں حیرانی سے یہ سوچتی رہی کہ یہ ایسا کون سا شخص ہے جس کے پاس اتنا نالج ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ علم کا دریا تو یہ کہنا بجا ہو گا۔میں نے اسی وقت ان کا ٹویٹر اکاونٹ کھولا اور شروع سے لے کر 200 کے قریب ان کے تمام ٹویٹس کا مشاہدہ کیا۔بس اسی دن یہ سوچ لیا کہ میرا لیڈر عبداللہ حمید گل ہے اور جب تک زندگی ہے میری سپورٹ میری دعائیں بس انہی کیلیے ہوں گی۔محمد عبداللہ گل صاحب صرف تحریک جوانان پاکستان و کشمیر کے چئیر مین ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک سینئر تجزیہ کار اور اعلی پائے کے کالم نگار بھی ہیں۔
اس دھرتی ماں سے اس قدر محبت و عشق شاید ہی کسی حکمران کو ہو جیسے محمد عبداللہ حمید گل صاحب کو ہے۔یہ عظیم لیڈر صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ انٹر نیشنل لیول پر بھی جانا پہچانا جاتا ہے۔محمد عبداللہ گل صاحب کو اللہ نے سب کچھ عطا کیا ہے۔عزت، دولت،شہرت شاید یہی تین چیزیں ہوتی ہیں جس سے انسان خوشگوار زندگی بسر کر سکتا ہے۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں عبداللہ حمیدگل صاحب کی شکل میں ایک تحفے سے نوازا۔جب بھی ان کو کسی ٹاک شو کے اندر گفتگو کرتے ہوئے دیکھا تو ہمیشہ ان کے چہرے پر ایک عجیب سی افسردگی دیکھی،میں نے کبھی بھی ان کو کسی ٹاک شو میں بھی خوش نہیں دیکھا۔ہمیشہ ان کو پاکستان کے مسائل میں الجھا ہوا دیکھا۔بعض ٹاک شوز میں دیکھا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔اللہ گواہ ہے اور تاریخ میں یہ تحریر سنہری حروف میں لکھی جائے گی کہ جس دن 5 اگست کو کشمیر کی آئینی حثیت ختم کر کے بھارت نے وہاں کرفیو لگا دیا تو اس پر سب سے سخت رد عمل چئیر مین تحریک جوانان عبداللہ حمید گل کی طرف سے دیکھنے میں سامنے آیا۔اور بار بار وہ حکومت پاکستان کو باور کراتے رہے کہ خدا را کشمیر کیلیے کچھ کریں صرف باتوں سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا اور اسی سلسے میں انہوں نے حکومت کے مردہ ضمیر کو جگاتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اگر حکومت نے مسئلہ کشمیر پر کوئی واضح پالیسی نہ اپنائی تو وہ عوام کو جہاد کی کال دے دیں گے۔لیکن اس کے باوجود حکومت پر جوں تک نہ رینگی۔اب عبداللہ حمید گل صاحب کسی مناسب موقع کی تلاش میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح دیگر جماعتوں اور علماءکرام کے ساتھ مشورے کے بعد جہاد کی کال دے دی جائے کیونکہ ہم سب کی طرح وہ بھی حکومت کی کشمیر کے سلسلے میں پالیسی سے مایوس ہو چکے ہیں۔ہر انسان کسی نہ کسی لیڈر کو اس کی خوبیوں کی وجہ سے پسند کرتا ہے اسی چیز کو مد نطر رکھتے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں عبداللہ حمید گل صاحب کو سپورٹ کروں گی۔نہ صرف سپورٹ کروں گی بلکہ پاکستانی عوام اور خاص کر نوجوانون کو جگا¶ں گی اور انہیں تحریک جوانان کے منشور اور مقصد سے آگاہ کروں گی۔الحمدو للہ ایک سال مکمل ہونے کو ہے میں اس تحریک کو کامیاب بنانے کیلیے سوشل میڈیا کے ذریعے مثبت کردار ادا کیا۔میں جانتی ہوں عوام موجودہ حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے بہت مایوس ہو چکی ہےاور وہ کسی ایسے چہرے کو تلاش کر رہے ہیں جو آگے آئے اور جس کی قیادت میں وہ اس بوسیدہ نظام کے خلاف بغاوت کریں۔تو میں ایسے مایوس نوجوانوں کو امید دلانا چاہتی ہوں کہ میں جانتی ہوں کہ آپ کو ہر طرف اندھیرا نظر آ رہا اور امید کی کوئی کرن باقی نہیں بچی،لیکن اے نوجوانوں آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب کسی ملک کو خوشحالی کی جانب گامزن ہونا ہوتا ہے تو اللہ اس سے پہلے اس قوم کو مشکلات سے گزارتا ہے۔میری نوجوانوں سے اپیل ہے آگے بڑھیں،تحریک جوانان پاکستان کا حصہ بنیں اور محمد عبداللہ حمید گل صاحب کی قیادت میں اس ملک کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ آپ کو بغیر کسی ڈر اور خوف کے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ہمیں کوئی ایسا کامیاب لیڈر نہیں مل سکا جس کی قیادت میں ہم اس ریاست کو صحیح معنون میں ریاست مدینہ بنا سکیں۔ایک عرصے سے یہ پریشانی اور مایوسی تھی کہ ہم نوجوانون کا مستقبل ہمارے اپنے ہی حکمرانوں نے خاک میں ملا دیا لیکن الحمدوللہ جب سے چئیر مین تحریک جوانان پاکستان و کشمیر محمد عبداللہ گل صاحب کے نظریے،سوچ اور فکر کو پہچانا تو یہ اطمنان ہو گیا کہ برا وقت گزر چکا ہے لیکن آگے کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ماشائاللہ تحریک جوانان پاکستان اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی تحریک بن کر سامنے آئی ہے اور نوجوان تیزی سے اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں اللہ سے دعا ہے کہ وہ محمد عبداللہ گل صاحب کو ان کے نیک مقاصد میں کامیاب کرے اور اس دھرتی ماں کیلیے انہوں نے جتنے بھی خواب دیکھے وہ سب پورے کرے۔اور میں عبداللہ حمید گل صاحب کو یہ یقین دلانا چاہتی ہوں کہ آپ آگے بڑھیں اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے ان ظالموں کے خلاف جہاد کریں یہ ہم نوجوانوں کا وعدہ ہے آپ سے ہم ہر قدم پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔