Buy website traffic cheap


نام نہاد الحاق کی دستاویز اور اٹوٹ انگ کے دعوے

از: سردار ساجد محمود
دنیا بھر میں آباد کشمیری 27،اکتوبر کو ہر سال یوم سیاہ کے طور پر مناتے چلے آر ہے ہیں۔ کیونکہ تاریخی اعتبار سے یہی وہ دن ہے جب صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی مظلوم کشمیری قوم کی غلامی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس دن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعویدار بھارتی حکومت نے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف ریاستی عوام کی طرف سے اٹھنے والی شورش کو دبانے کے لئے مہاراجہ کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی مدد کے بہانہ ریاست جموں وکشمیر پر چڑھائی کر ڈالی۔ مہاراجہ کی طرف سے نا م نہاد الحاق کی دستاویز اور قبائلیوں کی کشمیر کے اندر موجودگی کو بنیاد بنا کر کشمیر پر اپنا غیر قانونی تسلط جمالیا۔گزشتہ برس 05اگست 2019کو بھارت نے کشمیر کے نام نہاد الحاق کی بنیاد پر آرٹیکل 370جس کی روشنی میں ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت کا درجہ حاصل تھا، کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے جابرانہ و غاصبانہ قبضہ کو سرے سے غیر قانونی بنا دیاکیونکہ ریاست جموں و کشمیر کے کسی بھی علاقے کو ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے خلاف انڈین یونین کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔بھارت کا یہ اقدام کشمیری مسلمانوں کی جدو جہد آزادی میں کسی طرح بھی رکاوٹ نہیں بن سکتا کیونکہ کشمیر کی تاریخ میں ظلم و جبر کے خلاف جدو جہد اور بیش بہا قربانیوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے اور یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ مہاراجہ کو اگر اپنی ہی ریاست کی سرزمین تنگ پڑ سکتی ہے تو بھارت کے لیے بھی اپنا تسلط زیادہ دیر تک برقرار رکھنا آسان نہیں۔ یوم سیاہ اسی جد وجہد اور جذبہ حریت کو ایک نئی روح بخشتا ہے جس سے کشمیری قوم بھارت کی غلامی سے آزاد ہو گی۔
بھارتی حکمرانوں نے کشمیر پر اپنے غیر قانونی تسلط کو بر قرار رکھنے کے لئے پہلے مہاراجہ کی طرف سے جعلی دستاویز کو سہارا بنایا اور پھرحکومت پاکستان اور قبائلیوں کی پیش رفت کو بہانہ بنا کر بھر پور قسم کا پروپیگنڈا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قبائلیوں کی اکثریت کا پونچھ کے عوام سے گہرا تعلق اور لگاو تھا۔ پونچھ کے رہنماو¿ں کی طرف سے مدد طلب کئے جانے پر اپنے بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے۔ تاہم اچھے اوربرے افراد ہر معاشرے اور طبقے میں موجود ہوتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی اس وقت کچھ شر پسند عناصر بھی ضرور داخل ہوئے جس کے بارے میں مختلف مصنفین نے اپنے اپنے انداز میں تحریر کیا ہے۔ لیکن ہمارے کچھ نام نہاد قسم کے دانشوراور سستی شہرت کے متمنی عناصر اعلیٰ اعلان ہندوستانی پروپیگنڈا کو تقویت پہنچانے میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔حالانکہ فرسٹ لائن کشمیری قیادت کی مفاد پرستی اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے پہلے الحاق کا ڈرامہ رچا کر کشمیرمیں اپنی افواج داخل کیں اور بعد ازاں آئین کے آرٹیکل ۰۷۳میں ترمیم در ترمیم عمل میں لاتے ہوئے کشمیر کو بھار ت کا اٹوٹ انگ کہنا شروع کردیا۔حیران کن اور فکر انگیز امر یہ ہے کہ اب تو کچھ عرصہ سے بعض عناصر نے آزاد کشمیر میں بھی۲۲ اکتوبر کو قبائلیوں کی مداخلت کے خلاف احتجاج کے دن کے طور پر منانا شروع کر دیا ہے۔کچھ عرصہ قبل تک راقم نے کبھی نہیں سنا کہ ۲۲ اکتوبر کی تاریخ کشمیر میں کوئی خاص حیثیت ہے ما سوائے چند غیر ملکی ایجنسیوں کے تنخواہ دار دانشوروں کے،جنہوں نے ہندوستانی پروپیگنڈا کو تقویت بخشنے کے لئے اپنے اسلاف کی قربانیوں اور جدوجہد کو قبائلیوں کی مداخلت سے تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے عناصر کو یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیئے کہ قبائلیوں نے اگر اکتوبر میں مداخلت کی ہے توہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کے تربیت یافتہ مسلح غنڈے، پٹیالہ،نابھ،کپورتھلہ اور بھارت کی دیگر ریاستوں سے مسلح دستوں کی ہزاروں کی تعداد میں اگست اور ستمبر ۷۴۹۱ ? کے دوران جموں وکشمیر کے مختلف مقامات پر تعیناتی اور قتل عام کی تیاریاں تاریخی حوالوں سے مختلف تصانیف میں ثابت شدہ ہے۔اس لئے صرف اور صرف قبائلیوں کے مظالم کے خلاف مظاہرے کرنے والوں اور قبائلیوں کی مداخلت پر لمبے چوڑے مضامین لکھنے والوں اور تصویر کا ایک ہی رخ دیکھنے والوں کو غیر جانبدار مورخین و محققین کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہے۔

صدیوں سے سکھوں اور مہاراجوں کے ظلم و تشدد کی شکار کشمیری قوم کو نیست و نابود کرنے اور جنت نظیر،اہل نظر کے ایران صغیر پر قبضہ کے گھناونے منصوبہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے بھارت نے بین الاقوامی قوانین کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے۷۲اکتوبر۷۴۹۱?کو اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کیں۔ اس طرح بھارت نے73سال سے خطہ کشمیر کے ایک بڑے حصہ پر جابرانہ اور غیر قانونی قبضہ جما رکھا ہے۔ بھارتی حکمران اس سارے عمل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے مہاراجہ کی طرف سے الحاق کی جعلی دستاویز کو کشمیر پر قبضے کو جائز قرار دینے کی دلیل دیتے ہیں۔ مہاراجہ کے الحاق کی دستاویز کے ڈرامے اور پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرائے جانے کی کیا حقیقت ہے آئندہ سطور میں واضح کر نا چاہوں گا۔لیکن یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ ۳جون ۷۴۹۱ئ  کے منصوبہ تقسیم ہندکے آرٹیکل۷میں یہ واضح طو ر پر درج ہے کہ “مقررہ تاریخ کے دن وہ تمام معاہدے اقرار نامے اور تحریریں جو برطانیہ اور والیان ریاست کے مابین طے پائے ہیں۔ جن کی بنیاد پر والیان ریاست کو حق حکمرانی تفویض کیا گیا وہ سارے کے سارے ۵۱ اگست کو ساقط ہوجائیں گے”۔

لارڈماو نٹ بیٹن نے مذکورہ دفعہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھاکہ “ریاستوں کے حکمرانوں کو اپنی اپنی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت اپنی عوام کی خواہشات اور ریاست کے جغرافیائی محل وقوع کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا”۔اس طرح مہاراجہ کی شخصی حکومت کا از خود خاتمہ یقینی تھا مگر ظلم و تشدد اور بنیادی حقوق کے حصول کے لئے جا ری تحریکوں اور بغاوتوں کو طاقت کے زور پر کچلنے کی پالیسی کے نتیجہ میں مہاراجہ ہر ی سنگھ کو بھر پور عوامی مزاحمت کے نتیجہ میں سرینگر دارلحکومت کو ہنگامی طور چھوڑ کر جموں بھاگنا پڑا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مہاراجہ اوراس کی حکومت عملی طور پر معزول ہو چکی تھی۔اس عوامی مزاحمت یا تحریک کے نتیجہ میں ۴۲، اکتوبر ۷۴۹۱ئ کو تقریباً ایک تہائی سے زاہد علاقے پر عوامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔جس کے پہلے صدر سردار محمد ابراہیم خان اور دارلحکومت جنجال ہل تھا۔
آزاد انقلابی حکومت کے قیام کے تیسرے ہی دن یعنی۷۲، اکتوبر ۷۴۹۱ئ  کی صبح بھارت نے تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنی فوجوں کو سرینگر میں داخل کر کہ کشمیر کے چند مفاد پرست رہنماو¿ں اور مہاراجہ کی حمایت سے خطہ کشمیر پر اپنا غاصبانہ تسلط قائم کر لیا اور دنیا کے سامنے یہ جواز پیش کیا کہ کشمیر میں موجود قبا ئلیوں اور پاکستانی فوج کے انخلائ  کے بعد کشمیر سے بھارتی فو جیں نکال دی جائیں گی مگر عملاً ایسا نہ ہوا اور جو ں جوں وقت گزرتا گیا،اپنے تسلط کو مزید تقویت پہنچاتا گیا۔جب مفاد پرست کشمیری رہنماو¿ں کو اپنی غلطیوں کااحساس ہو اتو انہوں نے وقتاً فو قتاً ماضی کی غلطیوں کے ازالہ اور کشمیر کے تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے آواز بھی بلند کی مگر “اب پچھتائے کیاہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت”کے مترداف بھارت سرکار کے پاس ہر دور میں متبادل کشمیری رہنما موجود رہا اور اس طرح نام نہاد الیکشن کے ذریعے کشمیر اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جاتا رہا جسے بین الاقوامی طور پر کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔۵۷۹۱ء میں عبد اللہ اندرا گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں کشمیر اکارڈ عمل میں لایا گیا لیکن غیور کشمیری عوام نے اس سارے عمل کے خلاف بھر پور مزاحمت کی اور مقبول کشمیری رہنما شیخ محمد عبد اللہ کو بھر پور تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔
۷۲، اکتوبر ۷۴۹۱ئ سے لے کر تا حا ل بھارتی تسلط کے خلاف مزاحمت اور کشمیریوں کا رد عمل از خود ہی بھارت کے ناجائز اور غیر قانونی قبضہ کا منہ بولتا ثبوت ہے اور۷۴۹۱ئ کی وہ بغاوت جسے جواز بنا کر بھارت نے اپنے غاصبانہ قبضہ کو طول دے رکھا ہے۔