Buy website traffic cheap

لاہوریے جاہل نہیں زندہ دل ہیں

لاہوریے جاہل نہیں زندہ دل ہیں

از قلم۔ محمدطاہر تبسم درانی
ہمارے ایک بہت ہی پیارے دوست شاعر ڈاکٹر فخر عباس لکھتے ہیں۔۔۔
یہ جو لاہور سے محبت ہے۔ یہ کسی اور سے محبت ہے۔
پطرس شاہ بُخاری لکھتے ہیں تمہید کے طور پر صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گالاہور کو دریافت ہوئے ایک عرصہ بیت چُکااس لیئے دلائل و براہین سے اس کے وجود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، یہ کہنے کی اب ضرورت نہیں ہے کہ۔۔۔کرہ دائیں سے بائیں گھمائیے۔۔۔حتیٰ کہ ہندوستان کا ملک آ پ کے سامنے آ کھڑا ہو جائے۔۔۔۔۔پھر فُلاں عرض بلد اور فُلا طول بلد کے مقام انقطاع پر لاہور کا نام تلاش کیجیے۔۔۔جہاں یہ نام کُرے پر مرقوم ہو وہی لاہور کا محلے وقوع ہے۔ اس ساری تخلیقات کو مختصر مگر جامع الفاظ میں بزرگ یوں بیان کرتے ہیں۔لاہور۔۔۔۔لاہور ہی ہے۔۔۔اگر اس کے پتے (address) آپ کو لاہور نہیں مل سکتا تو آپ کی تعلیم ناقص اور آپ کی ذہانت فاتر ہے۔۔
اب وہ غلط فہمیاں البتہ دُور کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔لاہور پنجاب میں واقع ہے پنجاب اب پنج آب نہیں رہا۔۔۔۔ اس پانچ دریاؤ ں کی سر زمین مین اب صرف چار دریا بہتے ہیں اور جو نصف دریا ہے وہ تو اب بہنے کے قابل نہیں رہا۔۔ اسی کو اصطلاح میں راوی ضعیف کہتے ہیں۔۔ ملنے کا پتہ یہ ہے۔۔۔۔شہر کے قریب دو پُل بنے ہیں ان کے نیچے ریت میں دریا لیٹا رہتا ہے۔۔۔بہنے کا شغل عرصہ دراز سے بند ہے۔۔۔اس لیے بھی بتا نا مشکل ہے کہ شہر دریا کے بائیں کنارے واقع ہے یا دائیں کنارے۔۔۔لاہو ر تک پہنچنے کے لیے کئی رستے ہیں۔۔۔ مگر دو ان میں بہت مشہور ہیں ایک پشاور کے راستے اور۔۔ دوسرا یوپی کے راستے ۔۔ اول الزکر کو اہلِ سیف کہتے ہیں اور غزنوی یا غور ی تخلص کرتے ہیں۔۔۔
لاہور صوبہ پنجاب کا درالحکومت ہے اور پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر ہے یہاں پر زیادہ تر پنجابی بولی جاتی ہے اس شہر کو تاریخی عمارتوں کی وجہ سے بھی شہر ت حاصل ہے اس کو داتا کی نگری بھی کہتے ہیں۔ اس شہر کی اگر مزید بات کی جائے تو ایک طرف داتا علی ہجویری کا دربار ہے تودوسری طرف عاشقِ رسول ﷺ حضرت غازی علم دین شہید نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اس شہر میں میجر شبیر شریف مدفون ہیں اسی شہر میں بابا موج دریا نے اپنا ڈیرہ لگایا ہوا ہے جہاں لوگ فیض حاصل کرنے کے لیے حاضری دیتے ہیں۔
لاہور کو پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے، لاہور کو سکولوں اور کالجوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ لاہور شہر کی تین بڑی سڑکیں ہیں جو کہ مصروف ترین ہیں پہلی سڑک مال روڈ کہلاتی ہے یہ سڑک خوبصورتی کے لحاظ سے سب سے زیادہ خوبصور ت شاہراہ ہے شہر کے درمیان سے گزرتی ہے جس پر بے شما ر تاریخی عمارات واقع ہیں۔ چڑیا گھر، ہائی کورٹ جی پی او، پنجاب اسمبلی،جناح باغ قائد اعظم لائبریری، گورنر ہاؤس، الحمرا آرٹس کونسل، پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس، انار کلی عجائب گھر،ٹاؤن ھال کی خوبصورت عمارت اس شہر کے حسن میں مذید اضافہ کرتی ہیں۔ اس کے بعد مصروف ترین سڑک ملتا ن روڈ ہے جو لاہور سے نکلتی سیدھی ولیوں کے شہر ملتان شریف تک جاتی ہے جبکہ تیسری مصروف ترین شاہراہ فیروز پور روڈ ہے اس سڑک کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے یہ لاری اڈا مینار پاکستان سے ضلع کچہری، چوبرجی سے ہوتی ہوئی چونگی امر سدھو اور قصور کو لنک کرتی بھارت کی شہر فیروزپور تک جاتی ہے لیکن پاکستان بننے کے بعد یہ سڑک پاک بھارت بارڈر تک محدود کر دی گئی۔
لاہور اور لاہوریے زندہ دل ہیں لاہوریوں کو جاہل کہنا میرے نزدیک سرا سر زیادتی ہے، مجھ جیسے کئی مزدوروں کو شہر لاہور نے اپنے دامن میں سمیٹا ہوا ہے، اور میرے جیسے ہزاروں نہیں لاکھوں ہیں جو اس شہر میں روزی روٹی کمانے آئے اور لاہور کے ہو کر رہ گئے۔لاہوریوں نے ہمیشہ دوسرے شہروں سے آنے والے اپنے ہم وطنوں کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہا۔ بہت سی معروف شخصیات، سیاستدان، دانشور، قلم کار، کالم نگار، موسیقی کار، اداکار، تجزیہ نگار، صحافی فنکار الغرض زندگی کا کوئی شعبہ لے لیں،باہر سے آئے لوگ لاہوریوں کے دلوں میں سما گئے، اہلِ لاہور نے نہ صرف عزت دی بلکہ گھر، دولت، شہرت اور کئی اعلیٰ مقام دلائے۔ یہ لاہور ہی جہاں قلندر ِ لاہور علامہ ڈاکٹر اقبال کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہ لاہور ہی ہے جہاں اِن کو جاہل کہنے والوں نے اپنی تعلیم مکمل کی، یہاں سے اپنا کیرئیر شروع کیا۔ یہیں سے شہرت حاصل کی اور تین بار الیکشن لڑا،اس لاہور نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ عزت کی منزلیں طے کرتے لاہوریوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ الیکشن میں ناکامی کا بدلہ ایسے تو نہ لیں،نصف صدی تک لاہور اور لاہوریوں کا کھانے والے آ ج انہیں جاہل کہہ رہے ہیں۔ اہلِ لاہور وہ زندہ دل قوم ہے جن کے دل میں اپنے ہم وطنوں کے لیے ہمیشہ جگہ رہتی ہے، حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں لاہوریوں نے دل کھول کے حکومت کے ساتھ مل کر ہر دکھ دردکو بانٹا۔ پینسٹھ کے جنگ میں لاہوریوں کا جذبہ دیدنی تھا جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر فوجیوں کو کھانا پہنچانے کے لیے ہمتہ تن گوش کھڑے رہتے۔
بم دھماکوں میں زخیوں کو خون کا عطیہ دینے کی باری آئی تو لاہوریوں نے سب سے پہلے اپنے خون کے عطیات پیش کیے یہاں تک کے ہسپتالوں میں لکھنا پڑتا اب خون کے ضرورت نہیں۔ ملک میں سیلاب یا کوئی آفت آئی لاہوریوں نے سب سے پہلے اپنے گھر سے شروعات کیں، عاشورہ کے دنوں میں اپنی بساط کے مطابق ہر شخص سبیل لگاتا ہے اور غم ِ حسین میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر نیاز کا بندوبست کرتے ہیں۔
خُدا کی قسم لاہوریے جاہل نہیں زندہ دل ہیں یہ تو وہ لوگ ہیں جو ضرورت کے وقت اپنے منہ کا نوالہ نکال کر اپنے ہم وطن بھائیوں کی خدمت میں پیش کردیتے ہیں دوسروں کے لیے اپنے جان جوکھوں میں
ڈال دیتے ہیں اور ماتھے پر شکن تک نہیں آنے دیتے لاہوریوں کے لیے ایسے الفاظ سرا سر زیادتی ہے یہ تو ایسا ہی ہو گیا۔۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا