ملتان ٹی ہاوس میں ریشم دلان کانفرنس
تحریر: رانااعجاز حسین چوہان
سرزمین اولیا ءکو باری تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں عطاءکی ہیں اور یہاں کے مکینوں کو بھی فنی، تحقیقی اور تخلیقی صلا حیتوں سے نوازا ہے ۔ ملتان کو ملکی تاریخ، معیشت، سیاست اور ثقافت میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ملتان کے لوگ جہاں سرائیکی زبان ، آم اور کھجور کی طرح میٹھے و ریشم دل ہیں وہیں ملتان کا آرٹ،کلچر اور شعروادب کے حوالے سے ایک بلند مقام ہے۔ جنوبی پنجاب اور اس کے صدر مقام ملتان سے تعلق رکھنے والے شاعروں، ادیبوں سمیت اہل علم و فن نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر پاکستان کا نام روشن کیا ہے ۔ تخلیق کار فن کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو اسے اپنے قبیلہ کشتگاں سے وابستگی اور رابطے کی ضرورت رہتی ہے ، جہاں نئی تخلیقات پر بحث ہوتی ہے ادب ، معاشرے کے تعلق پر روشنی ڈالی جاتی ہے، شعور، محبت ،اقدار اور عصری تقاضوںپر گفتگو کی جاتی ہے ۔ اور صحت مند معاشرے میں ادب کے فروغ کی بحث جاری رہنی چاہیے ، مذاکرے کی فضاءقائم ہونے سے حالات بہتری کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔ اہل علم وفن میں رابطے کی ضرورت کے پیش نظرسال 2016 ءمیں ملتان ٹی ہا¶س کا قیام عمل میں آیا ، جہاں شعرائ، ادیبوں، دانشوروں اور لکھاریوں کو مکالمے کے لئے بہترین جگہ میسر آئی ۔ ملتان ٹی ہا¶س چار کنال کے رقبے پر تعمیر ہے ۔جس کا تمام فرنیچر انتہائی دیدہ زیب اور ایش وڈ سے بناہواہے ، جبکہ اس فرنیچر پر جو آرٹسٹک کام کیا گیاہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ایک سو ساٹھ کرسیوں پر مشتمل شاندار ہال۔ دیواروں پر ادیبوں شاعروں ، صداکاروں ، ڈراما نویسوں ، کہانی کاروں ، محقق ، مصور اور نقادوں کے ساتھ ساتھ علم دوست اور ادب دوست شخصیات کی آویزاں تصویریں، ملتان کے مشاہیر کے قلمی اسکیچ اور پورٹریٹ۔تقریبات کے لئے بالائی منزل پر علیحدہ خوبصورت ہال۔ بلاشبہ پورے جنوبی پنجاب کے ادیبوں اور شاعروں کو اس سے بہتر کوئی ایسی جگہ میسر نہیں آسکتی۔آج ملتان ٹی ہا¶س روشنی پھیلانے اورمحبت کادرس دینے والون کاٹھکانہ ثابت ہو رہا ہے ، بلکہ یہاں کتابوں کی تقریبات اور ادبی محافل منعقد ہو تی ہیں ،جس سے فنون لطیفہ کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ ملتان ٹی ہا¶س کے منیجر ارشد بخاری اپنے عمدہ اخلاق اور شیریں مزاج کی بدولت ممبران ٹی ہا¶س میں محبتیں بانٹ رہے ہیں۔ علم و ادب سے چاہ رکھنے والے اور عام لوگ بھی یہاں بیٹھ کر چائے کی پیالیوں کے دور چلا رہے ہوتے ہیں۔ ملتان ٹی ہا¶س کے پلیٹ فارم سے نوجوانوں کو ادیب و شعراءکی رفاقت نصیب ہو رہی ہے جس سے یقینا صحت مندانہ معاشرے کی بنیاد پڑے گی۔
ملتان ٹی ہاﺅس زاہد سلیم گوندل نے اس وقت تعمیر کروایا تھا جب وہ ملتان میں ڈی سی ہوا کرتے تھے ۔ ملتان کے لوگ خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایک ایسا منتظم میسر آیا ہے جو حرف کی حرمت سے بھی پوری طرح واقف ہونے کیساتھ ساتھ خود اہل قلم اور اپنے دل میں ادیبوں اور شاعروں کا درد بھی رکھتاتھا ۔ملتان ٹی ہاﺅس سے متعلق معروف شاعر اسلم انصاری کہتے ہیں ”جب تک اس شہر کے سینے پر ملتان ٹی ہاﺅس کا تمغہ سجا رہے گا ریشم دلان ملتان کے دل میں زاہد سلیم گوندل کی محبت موجزن رہے گی یہ خطہ ان کا یہ احسان کبھی چکا نہیں پائے گا“ زاہد سلیم گوندل ایک اچھے آفیسر، محنتی انسان اورادب سے محبت کرنے والی شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی محنت سے قائم ملتان ٹی ہا¶س ادبی حوالے سے پورے ملک میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے ، اور ادب کی ترویج میں اہم ترین کردار ادا کرہا ہے ۔ ملتان ٹی ہا¶س کے زیراہتمام چوتھی ریشم دلان کانفرنس ماہ اکتوبر 2020 ءکے آخری ہفتے میں سجے گی۔ ملتان ٹی ہاﺅس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں انتہائی سنجیدہ اور ملتان سے محبت کرنے والے شامل ہیں۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے منعقدہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس عظیم الشان کانفرنس میں ادب اور صحافت سے وابستہ نامور شخصیات کو مدعو کیا جائے گا ۔ ڈپٹی کمشنر ملتان عامر خٹک نے تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ کانفرس کے انعقاد کے لئے ملتان ٹی ہا¶س کی عمارت کی تزئین و آرائش کی جائے گی۔ خالد مسعود خان نے کہا کہ کانفرنس میں زاہدسلیم گوندل،مسعود اشعر اور اصغر ندیم سید سمیت ارشاد عارف،ڈاکٹر یوسف خشک اور ہارون الرشید کو بھی دعوت دی جائے گی جبکہ بیرسٹر ظفراللہ خان ،بشریٰ رحمان ، روف کلاسرا اور کمشنر ملتان جاوید اختر محمود بھی کانفرنس کے مہمان بنیں گے ۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے نامور شعرائ،ادیب اور لکھاری بھی کانفرنس میں اپنے مکالے پڑھیں گے۔ کانفرنس کے تمام شرکاءمیں1938 ءمیں شائع ہونے والی کتاب مرقع مولتان تقسیم کی جائے گی۔ جبکہ ڈاکٹر اسلم انصاری،ڈاکٹر اسد اریب اورٹی ہا¶س کے لائف ممبرخلیل احمد کی کتب بھی شرکاءکو بطور تحفہ پیش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ کانفرس کے تمام شرکاءکو تاریخ ملتان پر مبنی چارنئی شائع ہونیوالی کتب ، اور مقالات ملتان تحفے کے طور پر پیش کی جائے گی۔ہم دعا گو ہیں کہ ملتان ٹی ہا¶س میں ایسی عظیم الشان تقریبات کا انعقاد ہوتا رہے ، اور کلچر اور شعرو ادب کا گہوارہ اسی طرح علم کی روشنی اور محبتیں بکھیرتا رہے۔