Buy website traffic cheap

عمران امین

حکومتی چہرہ اُور بھڑوں کا ڈنگ

حکومتی چہرہ اُور بھڑوں کا ڈنگ
عمران امین

ارشاد ربانی ہے”اے غافل انسان!آخر وہ کیا (شے)ہے جس کے گھمنڈ نے تجھے اپنے مہربان اُور پیدا کرنے والے آقا سے سرکش کر دیاہے“۔یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج خُدا کی حکومت اُور انسانی بادشاہوں میں سخت جنگ برپا ہے۔وقتی طور پر شیطان کے چیلے چانٹے اپنے اُستاد یعنی شیطان کا تخت زمین کے ایک بڑے حصے پر بچھا نے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔یہ شیطانی بادشاہتیں اُور ان کے پیروکار چاہتے ہیں کہ خُدا کی حکمرانی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیں۔آہ!ہم بہت سو چکے۔غفلت اُور سرشاری کی انتہا ہو چکی ہے۔ہم نے اپنے خالق کے سامنے ہمیشہ غرور کیا لیکن مخلوق کے سامنے کبھی بھی فروتنی سے نہ شرمائے۔یہ ہمیں کیا ہو گیا ہے؟؟۔ہم کیوں نہیں سمجھ پا رہے کہ سچائی اُور دیانت کا ماحول فراڈ، فریب اُور دغابازی سے غبار آلود ہو چکا ہے۔دین الہی کی تعلیمات اپنی چمک دمک اُور خوبصورتی سے محروم ہو رہی ہیں۔لیکن یاد رہے کہ خدائی قانون کے مطابق جس طرح فطرت فائدہ مند اشیاء کو باقی رکھتی ہے اُور غیر فائدہ مند اشیاء کو فنا ہو جانا ہوتا ہے۔ اسی طرح انسانی جماعتوں میں بھی صرف ایسی جماعت کے لیے بقا ہے جس میں دنیا میں بسنے والوں کے لیے نفع ہو۔آؤ! اُس جماعت کو مضبوط کریں جو انسانوں کے لیے نفع بخش ارادے رکھتی ہے،ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرتی ہے،انصاف و مساوات کی بات کرتی ہے۔شیطان کے چیلوں کے خلاف ہمیں حق کا ساتھ دینا ہے مبادا! حق کی قوتیں مایوس نہ ہو جائیں۔آج کل موسم بدل رہا ہے اور مزاج سنور رہے ہیں۔بدلتے ہوئے موسم کو جو سمجھ رہا ہے وہ جانتا ہے کہ ان بدلتے موسموں اُور سنورتے مزاجوں کی کہانی کیا ہے؟۔اس کہانی سے پہلے یہ جان لیں کہ اس دنیا میں ہر انسان اپنے خیالات کا پہلے آقا ہوتاہے اُورپھراُن کا غلام بن جاتا ہے۔یہ خود پر منحصر ہے کہ آپ گوشہ تنہائی میں جا کر بیٹھ جائیں،بیرون ملک سیر پرچلے جائیں یا لوگوں کے لیے ایک مثال بن کر اُبھریں اُور تاریخ میں اپنا نام امر کر لیں۔ وقت پر کیا گیا فیصلہ اُور وقت پر اُٹھایا گیا قدم ہمیشہ کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔عمر خیام نے سچ کہا ”وقت ایک پرندہ ہے“۔کوئی نہیں جانتا کہ یہ کتنی جلدی گزر جاتاہے۔ایک تلخ حقیقت ہے کہ”رنگ و رُوپ،وہ جو میرے پیا من بھائے“۔”ہر موسم میرے ساجن کی ادا سے جڑا ہے“۔اگر یہ بات سمجھ لی جائے تو دنیا کے آدھے سے زائد مسائل حل ہو جائیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کو سمجھنے میں ہمارے لوگ ذرا دیر کر دیتے ہیں۔شائد ان لوگوں نے سُن رکھا ہے کہ ”اقبال ہمیشہ دیر سے ہی آتا ہے“۔مگر یا درکھیں! آج کے لوگ نہ تو اقبال ہیں اُور نہ ہی اُ س کے کردار سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ نقل تو کر سکتے ہیں مگراصل نہیں ہو سکتے۔ کسی سیانے نے کہا ہے ”زندگی ایک کھیل ہے“۔مگر یہ بھی یاد رہے کہ اس کھیل میں کوئی وقفہ نہیں ہوتا،کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی اُو ربس اس کھیل میں وقت گزرتا ہی جاتا ہے۔اس کھیل میں خواہ کامیابی ہو یا ناکامی،فیصلہ نہیں کیا جاسکتا،تاوقتیکہ آخری لمحہ ہو۔اس آخری لمحے میں ہی پتا چل سکتا ہے کہ کون جیتا،کون ہارا،بشرطیکہ کوئی آخری لمحہ ہو۔آپ کو زندگی کا یہ کھیل، جیتنے کے لیے ہی کھیلنا پڑتا ہے۔ جبکہ گنوانے کے لیے یہاں کوئی وقت نہیں ہے۔پاکستانی سیاست میں کئی بار ایسے حالات پیدا ہوئے جن میں سیاست دانوں کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی اُورجھوٹے مقدمات کا سامنا بھی کرناپڑا۔ مالی کرپشن میں لتھڑے ہوئے حاکم سیاست دان ایسی انتقامی کاروائیاں اپنے مخالف کو وقتی ڈرانے اُور دھمکانے کے لیے کرتے رہے ہیں۔ان مقدمات پر بعد میں افہام و تفہیم اُور مفاہمت کی مٹی ڈال دی جاتی ہے اُور یوں اقتدار کی جنگ جاری رہتی ہے۔عوام کے مال پر نظر رکھے سب سیاست دان،ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالنے اُور سرکاری مال ہڑپ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ڈھیر سارے مقدمات بنوانے اُور ثبوتوں کے انبار کے حکومتی دعوے کے بعد بھی پی پی پی کے چیئر مین آصف زرداری اُور اُن کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور تقریباً پانچ ماہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہو گئے۔سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پانچ ماہ اُور آغا سراج درانی کوگیارہ ماہ کے بعدضمانت مل گئی۔مسلم لیگ نون کے رانا ثناء اللہ اُور مفتاح اسماعیل بھی پانچ ماہ جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت کے حقدار ٹھہرے۔ ان لوگوں کی ضمانتیں حکومت وقت کے لیے ایک تشویش کُن بات ھونی چاہیے کیونکہ عمران خان جس طرح سے ان لوگوں کو معاشی بدحالی کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے اُن بھاری بھرکم الزامات کی روشنی میں موجودہ عدالتی ضمانتیں،پی ٹی آئی کی احتساب ٹیم کی کارکردگی کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔عوام کا ذہن یہ سب قبول نہیں کر رہا اُور وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیاسب ڈرامہ چل رہا ہے؟۔کیا موسم بدل گئے ہیں؟۔کیا سب لوگ مزاج شناسا ھو گئے ہیں؟۔کیا احتسابی ہواؤں کا ڑُخ بدل گیا ہے؟۔ کیا کوئی نیا این آر اُو لکھا جا رہا ہے؟۔کیا ضمانتوں کا موسم شروع ہو گیا ہے؟۔ایک آدمی کے گھر کی چھت پر بھڑوں نے چھتا بنا لیا تھا۔ ایک دن اُس آدمی نے بھڑوں کے چھتے کو اُکھاڑنے کا ارادہ کیا تو اُس کی بیوی بولی”کیا غضب کرتے ہو۔ان بچاروں کو گھر سے بے گھر کیوں کرتے ہو“؟۔خاوند نے اُس کی بات مان لی اُور اپنے کام پر چلا گیا۔کچھ دن کے بعد جب وہ اپنے کام سے واپس آیا تو دیکھا کہ اُس کی بیوی کا منہ سُوج کر کُپا بنا ہوا ہے۔بیوی نے رُو رُو کر بتایا کہ بھڑوں نے اُس کو کاٹا ہے۔اس پر وہ آدمی بولا”بے وقوف عورت اب کیوں مجھے کوستی ہے،اپنی عقل کا ماتم کر۔تم نے ہی کہا تھا کہ بھڑوں کا مسکن مت گراؤ، اب اُن سے کی گئی ہمدردی کا نتیجہ بھی خود ہی بھگتو“۔اب آپ لوگ سوچیں کہ خاوند کون ہے؟بیوی کون ہے؟ اُور بھڑ کون ہیں؟۔ویسے عقل مندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔