Buy website traffic cheap

روبینہ فیصل

جوتا مارو سالوں کو

جوتا مارو سالوں کو
روبینہ فیصل

یہ میرے الفاظ نہیں ہیں یہ وہ نعرے ہیں جو ایک علم کی طالبہ جا معیہ ملیہ اسلامیہ کے باہر اپنے ساتھی طالبعلموں کو پولیس کے ہاتھوں پٹتے، خون میں لت پت ہو تے دیکھ کر لگا رہی تھی، پورا نعرہ پڑھئیے؛
بی جے پی کے دلالوں کو
جوتا مارو سالوں کو
اور وہ صرف یہ نعرہ نہیں لگا رہی تھی بلکہ جنہیں وہ دلال کہہ رہی تھی یعنی دہلی پو لیس، ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکسی چٹان کی طرح کھڑی بھی تھی۔دوسری تین چار طالبات اپنے ساتھی طالبعلم کو جسے پولیس ڈنڈوں سے ایسے پیٹ رہی تھی جیسے وہ کوئی انتہائی خطرناک دہشت گرد ہو۔۔ بچوں کی بے بسی کا یہ منظر مجھ سے دیکھا نہیں گیا۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔
اگرانڈیا میں رہنے والے یہ مسلمان بچے اس وقت خاموش نہ رہتے جب جموں کشمیر میں بھارت ایک ناقابل ِ شکست غنڈہ بنا مجبور اور بے کس کشمیریوں کو محصورکئے ہو ئے تھاور ان کی خود مختار آئینی حیثیت کو پاؤں تلے روند کر انہیں بھارت کا شہری نہیں بلکہ غلامی کے درجے پر پہنچا چکا تھا (میں نے تب بھی لکھا تھا کہ یہ بات اب یہاں پر رکے گی نہیں اگر جن شرائط پر کشمیر پر سودے بازی کی گئی وہ شرائط ہی ختم کر نے کی جرات کر سکتا ہے تو مودی کا نیا بھارت کچھ بھی کر سکتا ہے)،تو شائد اسی سال کے اندر اندر کم از کم مودی سرکار ایک اور اتنا بڑا قانون بنانے کی ہمت نہ کر پا تی۔اور اس کے بعد جب سب مسلمان مصلحت کی چادر اوڑھ کر بابری مسجد کے فیصلے پر سر تسلیم خم کر گئے توآپ نے ظلم اور نا انصافی کے ہاتھ اور مضبوط کر دئیے۔۔حکومت، جب دوسرے گھر جلانے میں مصروف تھی تو مزاحمت کے نام پر بالٹی بھر پانی ادھر ڈال دیا جاتا تو شائد۔۔۔۔۔
مگر اب شہریت ترمیمی بل جو 12دسمبر کو پارلیمنٹ میں بی جے پی کی اکثریت ہونے کی وجہ سے باآسانی قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جس کے مطابق، افغانستان،پاکستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہندو، عیسائی،سکھ،بدھ،جین اور پارسی،ان سب کو بھارتی شہریت باآسانی مل جائے گی کیونکہ ان مسلمان ممالک میں غیر مسلمانوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے۔۔ یہاں تک بات سمجھ میں آبھی جائے تو جب 1971 سے آکر ادھر بس جانے والے مسلمان، ان کا کیا۔۔ اس زمانے میں پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے بھارت نے بڑی فر اخ دلی سے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں۔۔ مکتی باہنی کی تربیت، بنگالیوں کو پناہ دینا اور اپنی ائیر سپیس افواج(پاکستان) کے لئے بند کر دینا یہ 1971کے ہمسائے کے وہ تحفے ہیں جن کی وجہ سے بنگلہ دیش کا وجود ممکن ہو سکاتھا۔ اور اس نئے قانون کے بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان پناہ گزینوں میں جب ۱۱ لاکھ ہندو مہاجروں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ نکلی جو کہ ۸ لاکھ تھے، تو پھر بل کو ترمیم کر کے منظور کروا لیا گیا جس کی وجہ سے، آسام (جو مقبوضہ کشمیر کے بعدمسلمان آبادی والا دوسرا بڑا صوبہ ہے) میں ۱۱ لاکھ غیر مسلم مہاجروں کو خود بخود شہریت مل جائے گی اور صرف مسلمان اپنی شہریت ثا بت کر نے کے لئے در بدر ہو تے پھریں گے اور کیمپوں میں رہیں گے۔ یہ بلاشبہ کالے دلوں کے ساتھ کالا قانون بنایا گیا ہے اور مسلمانوں سے ہندوستان پر ہزار سال تک حکومت کر نے کا بدلہ بڑی بھونڈی سی ادا کے ساتھ لیا جا رہا ہے
۔ اور دوسری بات جو پارلیمنٹ میں وزیر ِ داخلہ امیت شاہ نے کی کہ” مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے ذیادہ ہو رہی ہے، تو کیا بھارت کو مسلمان ملک بنا دیں؟ ”
امرتا پریتم نے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے وارث شاہ کو قبر سے بلا یا تھا اور ایک آفاقی نظم تخلیق ہو گئی تھی کہ وہ صوفی اور شاعر لو گ تھے ۔۔ لیکن میں کیا کروں میرا دل اندرا گاندھی کو اسی طرح قبر سے بلا کر پو چھنے کو کر رہا ہے مگر امرتا کی طرح نہیں اس جامعیہ ملیہ کی بے باک طالبہ کی طرح کہ اب بول!!۔قبر سے اٹھ کر آاوردیکھ کہ تاریخ کا پہیہ الٹا گھومے تو منہ پر کیسا تھپڑ پڑتا ہے۔
یہ سخت دل، خود پرست لوگ جو اپنی انا سے آگے سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور جو وطن پرستی اور دشمن کونیچا دکھانے کے نام پر انسانیت کے خلاف کیسے کیسے گھناؤنے جرائم، سازشیں اور پر وپگینڈا کرتے ہیں ان مرے ہو وئں کو بھی آواز دیں تو کیسے دیں۔
کاش!! آج اندرا گاندھی قبر سے اٹھ کر بس ایک دفعہ آئیں اور دیکھیں کہ بنگلہ دیش بنوا کر انہوں نے اپنے تئیں جس دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا تھا وہ ڈوبا نہیں تھا اور دیکھیں آج کسی سانپ کی طرح پھن پھیلائے آپ ہی کے ملک میں کھڑا ہے۔آج آپ کے ملک میں رہ جانے والے مسلمان، جو سالوں سے یہی کہتے جا رہے تھے کہ” ہم ٹھیک ہیں ہم ٹھیک ہیں ” آج مودی کی صورت،چہروں سے نقاب اترے تو بھارت کی سیکولرزم کا جھلسا ہوا چہرہ سب کو نظر آگیااور وہ کتنے ٹھیک ہیں یہ بھی نظر آگیا۔
بھارت والے، ملک کو جمہوری اور آئین کو سیکولر کر کے بہت سال ان عفریتوں سے بچے رہے،جن کے پنجے، پاکستان میں اندر تک گھستے جا رہے تھے۔۔ آج پاکستان، آئین میں مذہب کی آمیزش کے باوجود، سالوں مارشل لاء اور نیم مارشل لاٗ حالتوں میں رہنے کے باوجود بھارت سے بہتر شکل کا لگ رہا ہے۔
۶۱ دسمبر ۱۷۹۱کو سقوط ِ ڈھاکہ ہوا تو جانئے ۲۱ دسمبر ۹۱۰۲کو بھارت کی نقاب کشائی ہو گئی۔۔ اصلی چہرہ سامنے آگیا۔۔یہ ایکسپوز ہو نے کا سلسلہ مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت کو منسوخ کر نے سے شروع ہوا، بابری مسجدکے ملبے پر رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ، گائے کا گوشت کھانے، پکانے والوں کے قتل و غارت، اور اب یہ شہریت کاکالا قانون اور اس پر ختم ہو نے والا نہیں، بوتل میں سے جن باہر تو تھا اب نظر آنے سے بھی شرماتا نہیں ہے۔
جیسے اسرائیل نے ساری دنیا سے یہودی اسرائیل آباد کر نے کا کام کیا تھا یہی حرکتیں ہندو توا کے نام پر مودی سرکار کر رہی ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کے مقابلے میں ہندو وں کی آبادی بڑھانے کا کیا مردانہ طریقہ ہے کہ مسلمانوں کو ملک بدر ہی کر نا شروع کر دیا جائے۔۔نہ رہے گا بانس اور نہ ہی بجے گی بانسری۔واہ۔۔۔۔۔۔
میں تو کئی سالوں سے اپنے ہی ملک کے دانش وروں کی باتیں سن سن کر پک چکی تھی جن میں ہر دوسری بات میں مولانا ابوالکلام آزاد کی پیشن گوئیوں کا ذکر ہو تا تھا۔ جو انسان کانگریس میں تھا اور جس نے وہی کہنا تھا جو کانگریس کے دوسرے لیڈر صاحبان جیسے کہ پنڈت نہرو، گاندھی جی اور پاٹیل وغیرہ نے کہنا تھا مگر نہیں ان کی ہر بات دہرا کر انہیں ولی کے درجکے پر بٹھانا، دانشوری بس اسی کا نام رہ گیا تھا اوریہ پیشن گوئی کہ پاکستان بننا ہی نہیں چاہیئے تھا، اس پر تو جب سب عالم فاضل مل کر سر دھنتے تھے تو بس۔۔۔۔تو اب ٹھنڈ پڑ گئی؟
اگر ۰۰۲ ملین مسلمان، ایک دن کسی بھی قانون سے کھڑے کھڑے اپنے پاؤں کے نیچے زمین سے محروم ہو سکتے ہیں تو اس سے ڈبل ٹرپل بھی ہو تے تو کیا ہو تا۔۔ کیا ہندو اپنی آبادی مسلمان سے ذیادہ رکھنے کے لئے ان کی زبردستی نس بندی (سنجے گاندھی نے اندرا کی ایمرجنسی کے زمانے میں یہ بھی کیا) نہ شروع کر دیتے۔”ہندوستان ہندوؤں کا ہے۔۔” یہ سوچ اگر اس وقت قائد اعظم کو نظر نہ آتی تو ہندو مسلم اتحاد کے ایمبیسیڈر کہلائے جانے والے کیوں پاکستان بنانے کی سر دردی مول لیتے۔۔ اندرا گاندھی کے ساتھ اگر ابو الکلا م آزاد بھی دو منٹ کے لئے اپنی قبر سے اٹھ کر تشریف لائیں تو دیکھ لیں کہ آج کی صدی کے ہندوستانی مسلمانوں نے آپ ہی کی طرح کی مصالحت پسندی کی سیاست کر کے کیا حاصل کیا ہے؟
ہم سے کل تک یہ سوال کر نے والے کہ تم لوگوں نے پاکستان لے کر کیا حاصل کیا ہے آج اسی کٹہرے میں کھڑے ہیں اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان لے کر ہم نے کم از کم آزادی کی سانس تو لی ہے۔ اور اگر اس چھوٹے سے کٹے پھٹے پاکستان کو پہلے دن سے بقا کی جنگ میں الجھا نہ لیا جا تا تو شائد ایک پر امن اور انصاف بھرا معاشرہ ہمیں مل ہی جا تا۔
دیر سے کھڑے ہو ئے مگر جس جرات مندی سے جامعیہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ یو نیورسٹی اور جواہر نہرو یو نیورسٹی کے طالبعلم خاص کر کے لڑکیاں، تمام مسلمانوں کی آواز بنے نا انصافی کے خلاف سینہ سپر ہیں، بھارت کے مسلمان علما اور سیاستدانوں کے لئے قابل ِ تقلید ہیں کہ قوم اگر آپ پر اعتماد کرتی ہے تو ان کی سودے بازی کرتے ہو ئے تھوڑا سا رک جایا کریں کہ یہ معاملات نسلوں تک جاتے ہیں۔
۔۔ ہمیں اب بس انسانیت کی ضرورت ہے اور اگر مذاہب کی ڈوری بھی تھامنا ہے تو ان کے وہ پاٹ پڑھیں جو پیار، محبت اور امن کا درس دیتے ہیں۔اور یہ 2019کی جاتی بہاروں کا پیغام اس پو رے خطے کے نام ہے کہ آنے والے سب بچے امن سے،سر اٹھا کر برابری کی سطح پر جی پائیں۔۔۔۔۔