Buy website traffic cheap

اخلاقی گراوٹ, طا رق حسین بٹ شانؔ

اخلاقی گراوٹ کا نوحہ

اخلاقی گراوٹ کا نوحہ
طا رق حسین بٹ شانؔ

دنیا کی کوئی بھی قوم اپنے اخلاقی ضوابط کے بغیر ترقی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ کسی بھی قوم کی اخلاقی قوت اسے ایک ایسی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر وہ بجا طور پر فخر کرسکتی ہے۔ لہذا جو قوم اپنے آئینی اور قانونی احساس سے عاری ہو جائے وہ اقوامِ عالم میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتی۔مارشل لائی ادوار نے دنیامیں پاکستا ن کا تابناک چہرہ مسخ کیا جس پرپوری قوم شرمندہ ہے۔ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کو پاکستانی قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی کیونکہ ان کی پھانسی جنگل کے قانون کی سب سے قنیح مثال تھی۔قوم آج تک ان کی پھانسی کے صدمہ سے باہر نہیں نکل سکی۔اس پھانسی نے نہ صرف قوم کا مورال تباہ کیا بلکہ پاکستان کی ترقی اور خوشخالی پر بھی مضر اثرات مرتب کئے۔ترقی تو بڑی دور کی بات ہے ایسی قوم تو عزت و احترام کی مسند کو دور سے دیکھنے کی بھی روادار نہیں سمجھی جاتی۔انسان اس کرہِ ارض کی سب سے حسین حقیقت ہے لہذا اس کا احترام دوسرے انسانوں پر فرض ہے۔دنیا کا سارا نظام اسی ایک اصول پر قائم ہے کہ انسان واجب الاحترام ہے لیکن جب انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کے قتلِ عام میں کوئی شرم اور عار محسوس نہ کرے تو لکھ لو وہ سوسائٹی زندہ رہنے کے قابل نہیں رہتی۔ہر معاشرے میں مختلف طبقات ہوتے ہیں جو سو سائٹی کی پہچان ہو تے ہیں۔وکلاء، ڈ اکٹرز،صحافی،اساتذہ کسی بھی معاشرے کا سب سے حسین چہرہ ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں بلکہ معاشرے کی خدمت کا فریضہ بھی سر انجام دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔لوگ ان کا دل سے احترام کرتے ہیں اور انھیں ان کی عوامی خدمات پر عزت و وقار سے نوازتے ہیں۔کوئی بیمار پڑ جائے ایک ڈاکٹر کی نظرِ ِ عنائت اسے زندگی کی نوید سناتی ہے۔موت و حیات کی کشمکش میں زندگی کا تحفہ دینے والے مسیحا کو لوگ خاموش دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ایسے مواقع پر ان کی آنکھوں میں شکریے کے آنسو بھی دیکھے جاتے ہیں۔یہ ایک ایسا تعلق ہے جو ڈاکٹر اور عوام کے درمیان ہو تا ہے۔اسی لئے عوام ڈاکٹرز کو مسیحا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔وکلاء کی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ آئین و قانون کی جنگ لڑتے ہیں۔ آمریت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں۔لوگوں کے دلوں میں آئین کی حکمرانی کی شمعیں روشن کرتے ہیں۔انھیں قانون کی اطاعت کا درس دیتے ہیں تا کہ سوسائٹی مہذب اور قانون کی پیرو کار بن جائے۔جمہوریت کی جنگ وکلاء کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔
ابھی تو کل کی بات ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف وکلاء کی تاریخی جدو جہد سے دنیا میں پاکستان کے وقار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کو للکارنا کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن آئین و قانون کی حکمرانی کی خاطر وکلاء نے اس انتہائی مشکل راہ کا انتخاب کیا۔ اپنی تاریخی جدو جہد میں وکلاء کو زندانوں کے حوا لے کیا گیا اور ان پر تشدد اور ریاستی جبر کی انتہا کر دی گئی لیکن وہ پھر بھی اپنی ڈگر سے نہ ہٹ سکے۔وکلاء کی جرات سے پاکستان میں جمہوریت کا نیا دور شروع ہوا اور کسی آمر کو جمہوری بساط لپیٹ دینے کا حوصلہ نہ ہوا۔کئی ماہ تک چلنے والی اس تحریک کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے رخصت ہو نا پڑا تو وکلاء کو سوسائٹی میں ایک نئی پہچان ملی۔ ان کی آئین و قانون سے وابستگی نے انھیں عزت و احترام کا نیا تمغہ عطا کیا۔ان کی نئی پہچان اور قوت کو سب نے تسلیم کیا۔اس نئی پہچان نے وکلاء کے اندر تفاخر کے ایک نئے احساس کو جنم دیا جس سے معاشرے میں ان کی اہمیت دو چند ہو گئی۔شائد اس اہمیت نے ان کے اندر اس احساس کو جا گزین کیا کہ وہ سوسائٹی کے کسی بھی طبقے پر من مانی کر کے انھیں زیر کر سکتے ہیں۔اس غیر فطری سوچ نے کئی نئے سماجی مسائل کو جنم دیا۔ان کی خدمات سے کسی کو بھی انکار کی مجال نہیں ہے لیکن چند دن قبل لاہور میں جو کچھ دیکھا گیا اس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ معاشرے کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی اکائی ملک کے ڈاکٹرز کے خلاف صف آرا ہو کر انھیں سبق سکھانے کی آرزو میں مریضوں،بیماروں اور مجبوروں کو موت کی آغوش میں دھکیلنے نکل پڑی۔ڈاکٹرز کے طرزِ عمل کے خلاف جلوس نکالنے پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔سوسائٹی کے ہر طبقے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ معاشرے کے دوسرے طبقات سے اختلاف کرے۔اپنی رائے اور اپنے موقف کو عوام کے سامنے رکھے لیکن اختلاف کے یہ معنی تو کہیں نہیں کہ پر تشدد راہ کا انتخاب کیا جائے اور ان لوگوں کو اس کی سزا دی جائے جو اس سارے مناقشے کا حصہ نہ ہوں۔ڈاکٹرز کی ویڈیو وائرل ہونے سے وکلاء میں جو بے چینی اور غصہ تھا کیا اس کے معنی یہ تھے کہ ہسپتا لوں میں پڑے ہوئے مریضوں کے چہروں سے ماسک اتار لئے جائیں۔؟ کیا اس کے یہ معنی تھے کہ جان بلب مریضوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا جائے۔؟ڈاکڑز نے ویڈیو کے ذریعے وکلاء کو مشتعل کرنے کی جو سازش تیار کی تھی وکلاء اس کا شکار ہو گے اور ڈاکٹرز کو سبق سکھانے کی بجائے مریضوں کو نشانہ بنا ڈالا جس کی پوری سوسائٹی نے مذمت کی۔وکلاء کے احتجاج پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اس احتجاج کے نتیجے میں جو کچھ سامنے آیا وہ باعثِ شرم ہے۔یقین کیجئے اس واقعہ کے بعد ہر سر ندامت سے جھک گیا ہے کیونکہ اس واقعہ سے کئی ہستے بستے گھر ماتم کدہ بن گئے۔ ڈاکٹرز کی خطا کی سزا ان مریضوں کو مل گئی جو بالکل بے قصور تھے۔انسان سب کچھ برداشت کر جاتا ہے لیکن کسی بے گناہ کا خون وہ برداشت نہیں کر سکتا۔اس کی نظر میں بے قصور کی موت سوسائٹی کی موت ہوتی ہے اس لئے وہ ایسے عمل کی حمائت نہیں کرتا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈاکٹرز نے وکلاء کو طیش دلوایا تھا لیکن وکلاء نے ڈاکڑز سے حساب چگتا کرنے کے لئے جو راہ اپنائی وہ انتہائی سفاک اور بے رحم تھی۔،۔
حکومت نے اس سارے معاملے میں جس بے حسی کا ثبوت دیا وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔وزیرِ اعلی پنجاب عثمان بزدار نے اس واقعہ کو روکنے کی کوشش نہیں کی جس پر انھیں مستعفی ہو جانا چائیے۔حکومت کو اپوزیشن کے خلاف زہر اگلنے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں ہے۔وہ اٹھتے بیٹھتے اپوزیش کے لتے لیتی رہی ہے۔اس کے پاس عوام کو مطمئن کرنے کیلئے ایک ہی چورن ہے اور اس چورن کا نام ہے کرپشن۔کوئی مسئلہ ہو اس کا سرا اپوزیشن کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور یوں عوام کی نظروں میں پارسائی کا بھرم قائم رکھنے کا ناکام کوشش کی جاتی ہے۔حالیہ واقعہ میں بھی اپوزیشن کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے۔اسے بھی سابقہ حکومتواں کی کارستانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ماڈل ٹاؤ ن جیسے واقعہ کو دہرانے سے اجتناب کا نعرہ سابقہ حکومتوں کی ناقص حکمرانی پر فردِ جرم عائد کرنے کے مترادف ہے جبکہ یہ سانحہ کسی بھی پہلو سے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے کم نہیں ہے۔ عمران خان اس سانحہ پر بھی وزیرِ اعلی پنجاب کو شاباشی دے رہے ہیں کہ آپ نے وکلاء کے جلوس کو نہائت شاندار طریقے سے ہینڈل کیا ہے۔جس عمل پر تاسف کا اظہار ہو نا چائیے تھا اسی پر دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے جائیں تو معاشرے کے اخلاقی بانجھ پن کا اندازہ کرنا چنداں دشوار نہیں ہونا چائے۔حکومت عوام کے جان و مال کی محافظ ہو تی ہے۔اسے اپنے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنا ہو تا ہے۔کیا حکومت نے آئین و قانون کے مطابق اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کیا؟کیا اس نے مشتعل ہجوم کو روکنے کی منصوبہ بندی کی؟ کیا اس نے انتظامیہ کو بر وقت آگاہ کر کے عملی قدم اٹھایا؟اگر حکومت نے مشتعل ہجوم کو کھلا چھوڑ کر اپنی نا اہلی کا ثبوت دیا ہے تو پھر بے گناہوں کا خون اس کی گردن پر ہے جس کا اسے حساب دینا ہو گا۔،