Buy website traffic cheap

مائنس ون کا نہیں عہد وفا کا وقت ہے!

خواجہ برادران کی بے نتیجہ خیر سگالی ملاقات

خواجہ برادران کی بے نتیجہ خیر سگالی ملاقات
شاہد ندیم احمد
ملک بھر میں جیسے کورونا کی صورت حال بدلتی جارہی ہے ،ویسے ہی روزانہ کی بنیاد پر ملک کا سیاسی منظر نامہ بھی تبدیل ہو رہا ہے ۔لاک ڈاﺅن کی پرواہ کیے بغیر سیاسی جماعتوں نے مستقبل کے جوڑ توڑ اور ممکنہ سیاسی ضرورتوں پر کام شروع کر دیا ہے۔ اپوزیشین کی سوچ ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتی ہے اور حکومت اپنے ہی وزن میں دبنے لگے تو کیا حالات ہوں گے ۔اس پہلو کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں میں بالخصوص پنجاب کی سطح پر غیر معمولی سیاسی سرگرمیاں دیکھنے میں نظرآ سکتی ہیں،خواجہ برادران کی رہائی کے بعدچودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کی مسلم لیگ (ن) کے بارے انتہائی سخت رویے کے باوجود حمزہ شہباز شریف اور سلمان رفیق کے پروڈکشن آرڈرز کے لیے چودھری پرویز الٰہی نے دباؤبرداشت کرتے ہوئے اپنا اختیار استعمال کر کے ناصرف اعلی سیاسی روایت قائم کی ہے ،بلکہ مسلم لیگ( ن ) والوں کو سبق بھی دیا ہے کہ سیاسی مخالفت سیاست کے میدان میں ہونی چاہیے، سیاسی کارکنوں اور اراکین اسمبلی کے بارے میں تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ کرنا غیر سیاسی عمل ہے۔
یہ امرواضح ہے کہ خواجہ برادران ایک لمبی قید کاٹنے کے بعد ضمانت پر باہر آئے ہیں اورخواجہ براداران کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں رائے پائی جاتی ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ،دونوں ایک عرصہ تک وزیر رہے ،مگران پر ایک روپے کی کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے ،تاہم پھر بھی انہوں نے سولہ ماہ سے زائد جیل میں قید کاٹی ہے۔ ایک عام تاثر ہے کہ،خواجہ براداران کیلئے لو ہے کے چنے چبانے والا بیان گلے کا پھندا بن گیا ،اسی لیے مہربان انہیں لوہے کے چنے سمجھ کر سولہ ماہ تک توڑنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔خواجہ براداران نے رہائی کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی سے ملاقات کی جو بظاہر رسمی ،مگر درحقیقت سیاسی ہے ،کیو نکہ سیاست میں بے مقصد ملاقاتیں فائدے سے زیادہ نقصاندہ سمجھی جاتی ہیں ،اس لیے نہ توخواجہ برادراسے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایسے ہی ملنے کے لیے چوہدری پرویز الہی کے گھر چلے گئے اور نہ ہی چو دھری پرویز الہی جیسے سمجھدار سیاستدان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے ایسے ہی خواجہ برادران کو گھر آنے کی اجازت دے دی ،اس ملاقات کے پیچھے شریف برادران کی رضامندی بھی شامل ہے ۔اس وقت مسلم لیگ (ن) اور ق لیگ دونوں ہی مشکل صورت حال کا شکار ہیں ،اسی سیاسی نوعیت کے منظر نامے نے (ق)لیگ اور ( ن)لیگ کے درمیان راہ ہموار کرنے کا ماحول بنایا ہے، لیکن چودھری خا ندان کی سیاست میں کا میابی بہترین سیاسی ٹائمنگ ہے ۔چودھری خاندان اور شریف خاندان کے درمیان بڑے عرصے بعد سرد مہری کی برف پگھلنے لگی ہے ،لیکن اس کا ہر گز مقصد یہ نہیں کہ اس ملاقات سے تبدیلی کشید کرنی ہے تو (ن) لیگ پنجاب چودھریوں کے حوالے کردے گی ،کیونکہ (ن) لیگ پنجاب کے اقتدار اعلیٰ پر اپنا خاندانی اور سیاسی حق سمجھتی ہے،لیکن اس ملاقات سے پنجاب کے دو بڑے سیاسی خاندانوں میں دوریاں کم ضرور ہو سکتی ہیں۔ خواجہ براداران کے ذریعے اختلافات کو دور کرنے کی کوشش سے مستقبل میں دونوں لیگوں کے بڑے بھی مل بیٹھیں تو پنجاب کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدل جاتا ہے، دونوں کی سیاسی قوت اور سیاسی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے،تاہم جس ملاقات کے فوری نتائج سامنے نہ آئیں ،اسے خیر سگالی کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف حکومت پہ در پے بحرانوں کا شکار ہے ،مگر مقتدر قوتوں کے ایک پیج پر ہونے کے باعث حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے ،اپوزیشن نے پہلے بھی اندرونی اور بیرونی قوتوں کی پشت پناہی میں حکومت گرانے کی کوششیں کرکے دیکھ لیں ،اب بھی پارلیمان کے اندر اور باہر تبدیلی کی افواہیں پھلائی جارہی ہیں،جن میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔ چودھری پرویز الٰہی تحمل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھنے اور اپنی سیاسی طاقت اور سیاسی چالوں کو اچھے طریقے سے چلنے میں مہارت رکھتے ہیں،وہ دھڑے بندیوں کی سیاست کے ماہر سمجھے جاتے ہیں،وہ سیاسی ملاقاتوں سے حکومت پر دباﺅ ضرور بڑھانا چاہیں گے ،مگرموجودہ سیاسی صورت حال میں کبھی (ن) لیگ کی طرف نہیں جائیں گے۔ فی الوقت یہ کہنا کہ اسلام آباد میں کوئی سیاسی کھچڑی پک رہی ہے اوروفاقی حکومت کو رخصت کرنے کا کوئی انتظام ہورہا ہے یا(ن) لیگ نے کوئی متبادل ضمانت حاصل کرلی ہے، یہ سب قیاس آرائیاں درست نہیں ہیں ۔ پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی کوئی تحریک پیپلز پارٹی کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی، اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ پیپلز پارٹی عمران خان کی سربراہی والی حکومت سے تعاون نہیں کرے گی۔اس وقت حکومت کی بجائے اپوزیشن زیادہ اندر ونی تقسیم کا شکار ہے ،اس لیے کورونا کے بعد شوگر سکینڈل اتنی بڑی وبا نہیں ہے کہ حکومت ہلا کر رکھ دے۔اس وقت چودھری اور خواجہ براداران کی خیر سگالی ملاقات کالطف لیجئے اوراپنے اپنے مفادات کے پیش نظر نتائج نکال کر پیش کرنے والوں کو داد دیجئے۔یہ جی بہلانے کا سامان اور ناراض گروپ کو پیغام بھی ہے کہ معاملات طے پا گئے ہیں، ہم آرہے ہیں، سارے دکھ دور ہوجائیں گے۔