Buy website traffic cheap

مائنس ون کا نہیں عہد وفا کا وقت ہے!

مائنس ون کا نہیں عہد وفا کا وقت ہے!

شاہد ندیم احمد
ملک میں آجکل سیاسی استحکام کی فضا مثالی نہیں ہے، منتخب ایوانوں اور اپوزیشن کی صفوں میں جس جارحانہ انداز میں حکومت مخالف سوچ پروان چڑھتی نظر آرہی ہے، ا سے سسٹم کے استحکام کے حوالے سے کسی صورت خوش آئند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اپوزیشن کو بھی حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کی بنیاد پر عوام میں پیدا ہونیوالے اضطراب سے حکومت مخالف اتحاد کیلئے صف بندی اور پوائنٹ سکورنگ کا موقع ملا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بے مہابا اضافے نے مہنگائی کے نئے سونامی اٹھا کر عوام کی عملاً چیخیں نکلوائیں تو اپوزیشن کو بجٹ کی منظوری کے مراحل میں حکومت پر چڑھائی کرنے اور اسکے کمزور ہونے کا تاثر پیدا کرنے کا موقع مل گیا، جبکہ بعض حکومتی اتحادیوں نے بھی حکومتی اتحاد سے بدکتے ہوئے اپوزیشن کے مقاصد کو تقویت پہنچائی، اس سےً حکومت کسی حد تک دفاعی پوزیشن پر آئی اور اسے بجٹ منظور کرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑا،مگر بجٹ اجلاس میں واک آوٹ نے صورت حال یکسر بدل دیاور بجٹ آسانی سے منطور ہو گیا۔ اپوزیشن کی جانب سے اب وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے جس سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت مزید گرم ہوگا۔ اگرچہ ہاؤس کے اندر تبدیلی بھی جمہوریت ہی کا حصہ اور آئینی طریق کار ہے، تاہم حکومت اور اپوزیشن کو باہمی محاذآرائی میں سسٹم کو کسی قسم کی گزند نہیں پہنچنے دینی چاہیے۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے درست کہا ہے کہ کرسی آنے جانیوالی چیز ہے،تاہم انکی کابینہ کے ایک معزز رکن جب یہ کہیں گے کہ عمران خان مائنس ہوا تو جمہوریت بھی مائنس ہو جائیگی تو اس سے سسٹم کی بساط لپٹنے کی کسی منصوبہ بندی کا ہی عندیہ ملتا ہے۔
تحریک انصاف حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی دوسال کا عرصہ مکمل ہواہے کہ مائنس ون کی باتیں ہونے لگیں جوجمہوریت کے مفاد میں بہتر نہیں ہیں،لیکنعمران خان نے پارلیمنٹ میں خود مائنس ون کا ذکر چھیڑ کر اپوزیشن اوراپنے دیرینہ مخالف کو یہ کہنے کا موقع فراہم کردیا کہ اسلام آباد میں درون خانہ کوئی نہ کوئی کھچڑی پک رہی ہے، ورنہ وزیر اعظم کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ میں چلا بھی گیا تو میرے بعد آنے والے احتساب کا عمل جاری رکھیں گے اور اپوزیشن کی جان نہیں چھوٹے گی۔اس سے قبل وزیر اعظم اپنی تقر یر میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ”میرے سوا کوئی دوسری آپشن نہیں ہے“۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی یہی غلط فہمی لاحق ہوئی تھی کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے اور جنرل ضیاء الحق نے بھی معلوم نہیں کس ترنگ میں آ کر کہہ دیاتھا کہ میں اگلا الیکشن بھی غیر جماعتی کراؤں گا،میاں نواز شریف نے عمران خان کی طرف سے استعفے کے مطالبے پر پھبتی کسی تھی کہ ”پلّے نئی دھیلا تے کردی پھرے میلہ،جبکہ آصف علی زرداری کی اینٹ سے اینٹ بجانے والی تقریر کا نتیجہ عوام دیکھ ہی چکے ہیں۔اس تناظر میں اچھا ہوا کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران اپنے علاوہ کرسی کو بھی فانی قرار دے کر تلافی مافات کردی،لیکن مائنس ون کے ذکر سے مسلم لیگ (ن)،پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اہم لیڈروں کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے ہیں۔
اپوزیشن کے دل میں لڈو پہلی بار نہیں پھو ٹے،یہ پہلے بھی متعدد بار ہو چکا ہے،مگر ہر بار مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے،اس بار بھی خوشی سے سپیکر اور وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں،کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے،کیونکہ مائنس ون کی بات پہلے ہی چوبارے چڑھ چکی ہے، ہر زبان پر ایک ہی بات ہے کہ حکومت ملک کو درپیش مسائل سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی ہے اور کسی قابل ذکر تبدیلی کے بغیر موجودہ انتظام کا چلنا ممکن نہیں رہا ہے۔ یوں تو
مائنس ون سے مراد کسی ایک شخص کی روانگی ہو سکتی ہے، لیکن پاکستانی سیاسی تناظر میں جب مائنس ون کا ذکر ہوتا ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کے دن گنے جاچکے ہیں۔ عمران خان نے گزشتہ روز بجٹ منظوری کے بعد کامیابی کے جوش میں اپنے مائنس ون ہونے کی تردید کرکے قیاس آرائیوں کو ہو ا دی ہے،اسے سیاسی زائچے بنانے والے اس تردید کو ممکنہ تبدیلی کے امکان کی تصدیق سمجھ کر خوشی سے نہال ہورہے ہیں،جبکہ حکومت بنانے اور مائنس ون کرنے والے آج بھی ایک پیج پر ہیں،اسی لیے عمران خان،اطمنان سے پرویز مشرف، آصف زرداری اور نواز شریف کے پرانے ساتھیوں کے سہارے ریاستِ مدینہ بنانے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ عمران خان بہت خوش قسمت ہیں کہ انہیں آج کی اپوزیشن سے فی الحال کوئی خطرہ نہیں، لیکن اس حوالے سے بہت بدقسمت بھی ہیں کہ انہیں اپوزیشن کے بجائے اپنوں سے زیادہ خطرہ ہے۔
اس وقت پاکستان گوناگوں مسائل اور بحرانوں میں گھراہے،کوئی ایک پارٹی یا فرد انہیں حل کرنے کے قابل نہیں،باہمی اتفاق رائے سے درست راستہ اختیار کرکے تمام بحرانوں سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے مائنس ون فارمولائے سیاست کو بیک وقت مسترد کرتے ہوئے حکومت کو اپنی جمہوری مدت پوری کرنے دینی چاہئے،کیو نکہ یہ وقت مائنس ون کا نہیں وعدوں میں رنگ بھر نے کا ہے۔وزیر اعظم بھی کب تک اپنی اچھی تقاریر سے عوام کی دل جوئی کرتے رہیں گے، حکومت سے عوام اپنے مسائل کے تدارک کے ساتھ عہد وفا چاہتے ہیں،عوام چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیے گئے تبدیلی کے وعدؤں میں اب رنگ بھی بھرا جائے،تاکہ عام آدمی کی آئے روز مشکل ترین ہوتی زندگی میں خوشحالی کے رنگ نظر آنے لگیں۔ بے شک حکومت کو کسی سے بھی کوئی فوری خطرہ نہیں،لیکن پیروں کے نیچے سے آہستہ آہستہ زمین کھسک رہی ہے،حکو مت کو اپوزیشن سے نہیں،بلکہ عوام کی وعدہ خلافی سے خطرہ ہے اور یہی تاریخ کا سبق ہے۔