Buy website traffic cheap

سرقلم

منشات کے جرم میں سعودی عرب نے کتنے پاکستانیوں کے سرقلم کئے ؟ ہولناک تفصیلات منظر عام پر آ گئیں

لاہور(ویب ڈیسک) سعودی عرب میں قانون کتنے سخت ہے یہ تو آپ جانتے ہیں مگر اس بات میں کتنی سچائی ہے ؟ اس بات کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب منشیات کے جرم اب تک 62 پاکستانیوں کے سرقلم کرچکا ہے-
ذرائع کےمطابق: سعودی عرب میں منشیات سمگلنگ کے جرم میں گزشتہ پانچ سال کے دوران 62 پاکستانیوں کے سر قلم کئے گئے۔وزارت خارجہ کے مطابق 2018ءمیں 17 پاکستانیوں کے سر قلم کئے گئے اور 2017ءمیں 13 پاکستانیوں کو موت کی سزا دی گئی جبکہ 2016ءمیں پانچ، 2015ءمیں 14 اور سال 2014ءمیں 12 پاکستانیوں کے سر تن سے جدا کئے گئے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار 764 پاکستانی منشیات سمگلنگ کے الزام میں جیلوں میں قید ہیں جو تعداد سعودی جیلوں میں قید تمام پاکستانیوں کا 47 فیصد بنتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ منشیات اسلام آباد میں واقعہ سعودی سفارتخانے میں ایک رابطہ دفتر اینٹی نارکوٹکس فورس کیساتھ رسمی رابطے کیلئے بھی کام کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ منشیات کی سمگلنگ روکنے اور پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ کئے جانے کا امکان بھی ہے۔

امریکہ نے شام کے بعد افغانستان میں بھی اپنی شکست تسلیم کرکے اہم اعلان کردیا
لاہور(ویب ڈیسک): امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی لاتے ہوئے اپنے فوجیوں کی تعداد میں قابل ذکر کمی کرنے کا حکم دیا ہے۔امریکہ کی جانب سے افغان پالیسی میں واضح تبدیلی کا فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے کہ جب 17 برس میں پہلی بار اس نے افغان طالبان سے براہ راست بات چیت کی ہے جس کے بارے میں افغان طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس میں امریکی فوج کے انخلا پر بات ہوئی ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نے محکمہ دفاع کو حکم دیا ہے کہ وہ افغانستان سے آئندہ مہینوں میں تقریبا سات ہزار کے قریب فوجیوں کو نکال لیں۔تاہم برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق افغانستان میں اس وقت موجود 14 ہزار امریکی فوجیوں میں سے پانچ ہزار کو واپس بلایا جا رہا ہے۔صدر ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان 17 سالہ افغان جنگ کی پالیسی میں اچانک تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان پہلی بار براہ راست مذاکرات ہو رہے ہیں تاکہ تنازعے کا پرامن حل نکالا جا سکے۔روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس ضمن میں منصوبہ بندی کے لیے زبانی احکامات دے دیے گئے ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ کتنی مدت میں فوجیوں کی تعداد میں کمی کی جائے گی اس حوالے سے ٹائم لائن پر غور کیا جا رہا ہے لیکن یہ عمل ہفتوں یا مہینوں میں مکمل ہو سکتا ہے۔روئٹرز کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ افغانستان میں باقی بچ جانے والے امریکی فوجی کس طرح سے اس وقت جاری مختلف مشنز کو جاری رکھ پائیں گے جس میں افغان فوج کی تربیت، زمینی کارروائی میں معاونت اور طالبان سمیت دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شامل ہیں۔امریکی صدر افغانستان میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کے زیادہ حامی نہیں رہے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے غیر متوقع فیصلہ کرتے ہوئے افغانستان میں تین ہزار اضافی فوجی بھیجے کے اعلان کیا تھا۔تاہم روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نجی طور پر افغانستان میں امریکی فوجی کی موجودگی پر شکوہ کرتے ہیں اور حال ہی میں انھوں نے اپنے ایک اتحادی سے کہا تھا کہ ہم وہاں اتنے برسوں سے ہیں، ہم وہ کر کیا رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اب امریکی فوج میں کمی کے فیصلے سے لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔امریکہ میں 2001 میں نائن الیون کے شدت پسند حملوں کے بعد اس نے اپنی فوج افغانستان میں اتاری تھی تاکہ القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن دلان کے خلاف کارروائیاں کی جا سکیں اور افغانستان کو پرامن ملک بنایا جا سکے تاکہ مستقبل میں یہاں سے مغربی ہداف کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی نہ کی جا سکے۔17 برس تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں 24 سو امریکی فوجی مارے جانے کے باوجود امریکہ کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی اور حالیہ برسوں میں افغان طالبان کے زیر قبضہ علاقے میں قابل ذکر تک اضافہ ہوا ہے اور کئی محاذوں پر افغان فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افغانستان میں تعینات فوجیوں کی تعداد میں کمی کے فیصلے کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا سکتا ہے۔اخبار کے مطابق صدر ٹرمپ کی کابینہ کے سینیئر اہلکار اور وائٹ ہاؤس کے سبکدوش ہونے والے چیف آف سٹاف جان کیلی اور وائٹ ہاؤس کے مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن اس فیصلے کی مخالفت کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ رپبلکن جماعتکی سینیٹر لینڈی گراہم نے ٹویٹ کی ہے کہ فوجیوں کو نکالنے کا کوئی بھی فیصلہ انتہائی پرخطر حکمت عملی ہو سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں خطے میں امریکی اقدامات میں پیش رفت رک سکتی ہے اور ایک اور نائن الیون حملے کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔