Buy website traffic cheap


افغانستان میں امن کے دشمن

بادشاہ خان
دو خبریں سامنے ہیں ،ایک خبر افغانستان میںایرانی وزیر خارجہ کے مشورے پر طالبان کے خلاف فاطمیون کے سربراہ محمد محقق کو اشرف غنی نے اپنا مشیر خاص مقرر کرلیا ہے ، دوسری خبر افغان تنظیم حزب وحدت کے سربراہ کریم خلیلی کا دورہ پاکستان ہے ، افغانستان ایک بار پھر نشانے پر ہے ،بھارت اور ایرانی ادارے ایک بار پھر طالبان کے خلاف سرگرم ہورہے ہیں،اسی حوالے سے گذشتہ دنوںآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے، خوشحال اور مستحکم افغانستان ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود نے کہا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کی صورت میں افغان قیادت کے پاس قیام امن کا ایک نادر موقع ہے، بدقسمتی سے بھارت افغان صورتحال خراب کررہا ہے، ہم نے اس حوالے سے ناقابل تردید ثبوت دنیا کے سامنے رکھے ہیں۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان خیالات کا اظہار افغان حزب وحدت اسلامی کے چیئرمین اور ٹاپ شیعہ رہنما کریم خلیلی کیساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقات میں کیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق کریم خلیلی نے پاک افغان تعلقات کے حوالے سے آرمی چیف کے ویژن کو سراہا۔ملاقات میں افغان امن عمل اور خطے میں امن واستحکام کے امور زیر غور آئے۔ کریم خلیلی نے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن واستحکام چاہتا ہے،پرامن اور مستحکم افغانستان تجارت کی نئی راہیں کھولے گا۔پاکستان چاہتا ہے کہ مسئلہ افغانستان کے حل کے لئے تمام فریقین مل کر کام کریں افغان مسئلہ کے جامع حل کے لئے بین الافغان مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا ناگزیر ہے۔مسلسل تصادم سے افغان عوام بری طرح متاثر ہوئے۔ہم افغانستان کے ساتھ تجارت معیشت سمیت دوطرفہ تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے عوام تاریخ، عقیدے، ثقافت اور روایات کے ناقابل فراموش بندھن کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔کریم خلیلی نے افغانستان کے لئے پاکستان کی مستقل حمایت خصوصا امن عمل میں اور گذشتہ کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی پر شکریہ ادا کیا۔
چند روزقبل ایرانی وزیرخارجہ نے کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی کو تجویز پیش کی تھی،کہ ملک میں امن و امان کے حوالے سے فاطمیون نامی لشکر اہم کردار اداکرسکتا ہے۔تجویزکو مدنظر رکھتے ہوئے اشرف غنی نے فاطمیون لشکر کے کمانڈر محمد محقق (افغان قاسم سلیمانی) کو سلامتی امور میں اپنا مشیر مقرر کردیا ہے ،جس سے اس خدشے کو تقویت مل رہی ہے ،کہ افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے ،واضح رہے فاطمیون وہ دستہ ہے جس نے شام کی خانہ جنگی ایرانی سرپرستی میں شرکت کی تھی، ایک جانب امریکی افواج کا انخلا جاری ہے ، دوسری جانب بلیک واٹر کا شور ہے ،اور تیسری جانب ایرانی مداخلت ایک بار پھر کھل کرسامنے آچکی ہے ، ایرانی حکومت روز اول سے افغان طالبان کی مخالف رہی ہے ، اور ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کا بیان کہ ہم نے طالبان کو دہشت گردی کی فہرست سے نہیں نکلا ۔آگ بھڑکنے کے مترادف ہے ، اس سے قبل یمن میں ایرانی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ، یمنی باغیوں کی مدد کرکے جس طرح سعودی عرب کو کمزور کرنے کی سازش کی گئی ، سب کے سامنے ہے ، البتہ بزرگ شیطان امریکہ اور اس کے حواری اسرائیل کے خلاف صرف خالی بیانات پر زور عیاں کرتا ہے کہ ،دال میں کچھ کالا نہیں، بلکہ دال ہی کالی ہے۔
مداخلت کی ایک کوشش گذشتہ دنوں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے افغانستان کے اندرونی معالات کے حوالے سے کی ، جس پر افغان طالبان اور اس کے ترجمان کا شدید ردعمل آیا۔امارات اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا،ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف نے طلوع نیوز سے انٹرویو کے دوران کچھ ایسی باتیں کیں، جسے واضح طور پر افغانستان کے اندرونی امور میں مداخلت سمجھا جاتا ہے۔ایرانی حکام کے اس طرح غیرذمہ دارانہ اور حقیقت کے خلاف بیانات دو دوست اور پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچاتا ہے۔اقوام متحدہ کی کسی دہشت گردی کی فہرست میں امارت اسلامیہ شامل نہیں ہے، اس حوالے سے ایرانی وزیرخارجہ کی گفتگو لاعلمی پر مبنی ہے۔ ایرانی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں، کہ اس طرح غیرذمہ دارانہ بیانات سے افغان قوم کے جذبات کو مجروح نہ کریں۔ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ آئندہ کےلیے ایسے باتیں نہ کی جائیں، تاکہ ہمیں بھی ردعمل پر مجبور نہ کیاجاسکے۔
افغان طالبان اور امارت اسلامیہ افغانستان کی حقانیت، فوجی قوت اور سیاسی وقار عالمی سطح پر سورج کی طرح روشن ہوا، تو ہندوستان و ایران کی نیندیں بھی اڑ گئیں۔ حقانیت اور حقیقت کے اس سورج کو وہ نہیں دیکھ سکتا، اسی لیے بغض و عناد کے شعلوں میں جل رہے ہیں۔مگر انہیں سمجھنا چاہیے کہ حق اور حقیقت کبھی بھی ہمیشہ گردوغبار تلے دب نہیں رہتا۔ایران کل بھی افغان طالبان کے مخالفین میں ایک تھا اور آج بھی ہے ،لیکن ایران کو یہ حقیقت نہیں بھولنا چاہی ہے کہ افغان کون ہیں ؟ ایران ان سے جنگ نہیں جیت سکتا،افغانستان اللہ کے ترکش کا وہ خطرناک تیر جہاں دنیا کی تیسری سپرپاور کا سورج غروب ہونے کو ہے،بے سرو سامان اور جدید ٹیکنالوجی سے محروم افغان طالبان اور افغان قوم نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا غرور خاک میں ملادیا ہے ،آج انیس سال گزر جانے کے باوجود دنیا کی تمام بڑی طاقتیں افغان طالبان کو توڑنے میں ناکام ہوچکی ہیں، طویل مذاکرات کے بعد بالاآخر افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ طے پایا ،جیسے افغان عوام سمیت دنیا بھر نے سراہا،تاکہ خطے میں امن قائم ہوسکے ،لیکن شروع دن سے ایک طبقے اور لابی کی کوشش رہی ہے کہ مذاکرات ناکام ہوں ،اورافغان طالبان کے خلاف افغانستان میں اتحاد قائم رہے ، اور امن قائم نہ ہو، معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لئے انڈین لابی سرگرم ہوچکی ہے ، ایران نے بھی معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا ہے ،سوال یہ ہے کہ ان ممالک کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار کس نے دیا ہے ؟
ایک بات یاد رہے افغان طالبان امارات سے دستبردار نہیں ہوئے اور کا موقف ہے کہ پڑوسی ممالک افغانستان کے اندورنی معاملات میں مداخلت نہ کریں،افغان طالبان اور افغان قوم جب بیرونی مداخلت کی بات کرتے ہیں، تو اس کا مطلب صرف پاکستان نہیں ہوتا،امریکہ سمیت ہر وہ ملک جو افغان سرزمین کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے، افغان ہر اس مداخلت کے خلاف ہیں جس سے افغانستان جنگی صورت حال سے دوچار ہے ، افغانستان ایشیا کا دل ہے ، اگر دل میں امن ہوگا تو پورے جسم میں سکون ہوگا،افغان طالبان کی اس فتح سے کچھ لوگ بلکہ ایران انڈیا سمیت چند ممالک کو تکلیف ہے ، لیکن ان کواصل تکلیف اسلامی نظام سے ہے ۔