Buy website traffic cheap


عذاب ،امداد ،ذلت اورسر گرم نوسرباز

عذاب ،امداد ،ذلت اورسر گرم نوسرباز
صابر مغل
حکو مت پاکستان نے کرونا وائرس کوWHOکی جانب سے عالمی وبائی آفت قرار دینے کے فوراً بعدملک بھر میں تمام کاروباری ،تجارتی ،سماجی ،مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی ،جبکہ اس سے قبل پہلے پڑوسی ملک چین اس وائرس کی تباہ کاریوں سے بری طرح متاثر ہو چکا تھا اور یہ سلسلہ بتدریج آگے یورپ کی جانب بڑھا مسلم ممالک میں سب سے پہلے اس آفت نے ایران کو اپنی ہولناک لپیٹ میں لیا،پاکستان بھی تب تک کسی حد تک متاثر ہو چکاتھاہنگامی اقدامات کے تحت ملک بھر کو لاک ڈاﺅن کرنے کے احکامات حکومت وقت نے جاری کر دیئے،سرکاری طور پر25فیصد بلکہ حقیقی طور پر پاکستان کی 50فیصد آبادی بری طرح غربت کا شکار نہ صرف غلامی کی زندگی ان کا مقدر بلکہ وہ خوراک کے حوالے سے بھی درد ناک حد تک عدم تحفظ کا شکار ہیں ،25فیصد کے قریب سفید پوش طبقہ (جو ایسے تو کیا عام حالات میں بھی سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ہے)،15فیصد ایسے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جوساہوکار تو نہیں مگرانہیں کسی نوعیت کی معاشی پریشانی نہیں ہوتی باقی10فیصد اس ملک کی تقدیر کے مالک و مختار بنے ہوئے ہیں،ہر اہم پیداوار،انڈسٹری،ہزاروں مربع رعی رقبہ، وہ چاہے اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میںان کے لئے ایک ہی بات ہے،ہم پر کئی دہائیوں سے مسلط یہی اشرافیہ ہر دور سے عالمگیر اشرافیہ کے طور پر ہم انتہائی بااختیار ہے،عذاب نے پنچے گاڑے توایک دم حکومتوں میں سدا بہار رہنے والی سدا بہار شخصیتوں نے عوامی ہمدردی کے دعویدار وزیر اعظم کو اپنی قیمتی آراءسے نوزا ،ٹائیگرز فورس کا قیام، مرضی مطابق امدادی پیکیج اور بظاہر اس کی تقسیم کا شفاف طریقہ متعارف کر دیا،بعض نے تو وزیر اعظم کو کرفیو پر بھی راضی کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر شکر ہے کہ ایسا نہ ہو سکا ورنہ پہلے مقبوضہ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل تھی پھر پاکستان سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہو جاتا،آج3ہفتے ہو چکے ہیں جب سے کاروبار زندگی مکمل طور پر معطل ہے مگر تاحال سرکاری امداد کسی ایک فرد تک نہیں پہنچی ،بلاشبہ 8 ارب ڈالر کی خطیر رقم کی امداد پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی امدادی رقم ہے لگتا ہے عوام تک پہچنے میں اسے مزید دو ہتفے لگ جائیں گے،کیونکہ پہلے ٹائیگر فورس مکمل ہو گی ،دوسری جانب اس امداد کے لئے نوسر بازوں کا ٹولہ پوری آب و تاب سے ملک بھر میں متحرک ہے جو اب تک بھوک کا بد ترین شکار عوام سے کروڑوں روپے ہتھیا بھی چکی ہے،تقریباً ہر ضلع میں ایسے کرداروں کی سرگرمیوں یا گرفتاریوں کی اطلاعات ہیں،یہ کام نہیں تھمے گا کیونکہ غربت او رذلت کی ماری قوم ہر نئی آس پر نو سر بازوں ،لٹیروں اور رہبروں کے ہاتھوں لٹ جاتی ہے کیونکہ جب فاقہ کشی ڈیرے ڈالے لے توپھر عقل بھی کام چھوڑ جاتی ہے،بھوک دنیا میں ایک ایسا درد ناک عذاب ہے چو انسان کو ہر قسم کی برائی ،بے حیائی ،ذلت اور سفاکی تک لے جاتا ہے جہاں آگے کی دنیا ختم ہو جاتی ہے،الراقم نے ای کبار بے نظیر انک سپورٹ کے بارے وفاقی سیکر ٹریٹ اسلام آباد کے باہر لگا سائن بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا ہر مستحق کی امداد عزت و وقار کے ساتھ ،وہ عزت و وقار آج بھی ملک کے کونے کونے میں نظر آتا ہے جب غریب عورتیں سارا سارا دن لائن میں لگ کر ہر تین ماہ بعد پیسے وصول کرتی ہیں،اس پر ہونے والی لوٹ مار کا قصہ الگ ہے،ایسا ہی کچھ اب مزید ہونے جا رہا ہے،جن شاہکاروں نے لاک ڈاﺅن کا شکار مزدوروں ،دیہاڑی داروں ،بے روزگاروں کے لئے شہاکار امدادی فارمولا نہ صرف تجویز کای بلکہ اس پر اپنے طریقے سے عمل درآمد کا آغاز بھی کرا دیا ہے کیا ان میں کوئی ایک بھی محض ایک دن فاقہ کشی کر سکتا ہے؟لعنت ہے اس امداد پر جو عوام کو تب ملے جب تک وہ بھوک اور ننگ سے خود کشی پر مجبور ہو جائیں،یہ تو مقام شکر ہے اس ملک میں جہاں گھٹیا ترین سوچ کے ھامل رہبر و رہنماءہیں وہیں ایک بہت بڑی تعداد ان کی بھی ہے جو حقیقی طور انسانی اقدار پر پورا اترتے ہیں گذشتہ روز مجھے بھی ایک دوست کی کال موصول ہوئی حالانکہ ان سے بہت پیارا تعلق ہونے کے باوجود فون پر انتہائی کم رابطہ ہوتا ہے نے پہلے خیر خیریت پوچھی اور پھر پہلے معذرت کرتے ہوئے پوچھا بھائی اگرکوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتائیں کسی تو پتہ بھی نہیں چلے گامیں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سوچاکہ جہاں اتنی خباثت او رخود غرضی ہے وہاں کس قدر نفیس ،ہمدرد اور بے لوث افراد کی بھی کمی نہیں ،امداد کے نام پر فوٹو سیشن کروانے اور انسانیت کو تار تار کرنے والے اس میں شامل نہیں وہ تو غربت کے نام پر کچھ دے کر تسکین حاصل کرتے ہیں پرسکون نیند لیتے ہیں ،ہم قربان جائیں ان پر جنہوں نے 3ہفتوں سے بھوک سے کسی ایک انسان کو بھی مرنے نہیں دیاایسے لوگ ہی تو مسیحا ہیں،ان کی عظمت کو غربت کی ماری قوم کا سلام، قوم اس وقت کورونا،حکومتی امداد ،پھر ملنے کی آس اور ذلت اور نو سربازوں کے ہاتھوں لٹنے کی وباءمیں گھر چکی ہے،ہمارا ایمان ہے کہ خدا عظیم ہمیں کورونا وائرس جیسی اس موذی وباءسے تو محفوظ فرما لے گامگر خبیثوں کی خبثاتوں سے کیسے محفوظ رہیں گے ؟یہاں عوام ایک طرف شرافیہ کے ہاتھوں لٹتی ہے اور دورا انہی کے طبقہ سے تعلق رکھنے والے ان کے گلوں پر چھری پھیرتے ہیں، اس وباءسے کب ہماری جان خلاصی ہو گئی؟ امداد ہم تک کب ہم تک پہنچے گی ؟اس امداد کے حصول کے لئے رجسٹرڈ ہونے کے لئے ابھی ہمیں کن کن بھیڑیوں کی خوراک بننا ہو گا؟پھر جب حتمی مراحل میں پہنچیں گے تو تب ہماری تذلیل کا عالم کیا ہو گا؟ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اس موذی وباءسے بچنے کی خاطرتمام کاروبار زندگی پر پابندی لگائی تا کہ کہیں یہ وباءخطرناک صورتحال نہ اختیار کر جائے مگر کچھ ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں اس پر عمل درآمد کسی مذاق سے کم نہیں صرف فلیگ مارچ،فوٹو سیشنز کی بھرمار اور میڈیا کی ہر قوت زینت بننا ہی جیسے وہاں کی ضلعی انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے،مشاہدے میں آیا ہے کہ کئی اضلاع میں مجموعی طور پر کچھ نہ کچھ رعایت دینے کے چکر میں پوری دکانداری کھول کر بیٹھے ہیں،ان کے ٹاﺅٹ انتہائی متحرک ہیں،چند روز قبل پنجاب میں گندم کٹائی کی وجہ سے ایسے اوزار بنانے والی دکانوں اور ورکشاپس کو ریلیف دیا گیا جس کی اجازت مقامی پولیس سے ضروری قرار پائی توبعض تھانوں میں توٹاﺅٹوں اور ایس ایچ اوزز کی چاندی ہو گئی ،ایسا ہی کچھ ڈبل سواری سمیت دیگر پابندیوں سے متعلقہ بھی ہے،کسی ضلع میں پابندی کی انتہا ہے تو بس کہیں صرف شکار کی تلاش،حکومت وقت کی جانب سے پاکستانی تاریخی کے نازک ترین لمحات میں امدادی پیکج کا ایسا فیصلہ توقع کے برعکس ہے اس امداد کا کیا فائدہ جو تین ہفتے کے لاک ڈاﺅن کے باوجود بھی کسی کو کھانے کی روٹی تک فراہم نہ کر سکے،ٹائیگر فورس پر حکوت بہت دعوے کر رہی ہے مگر یہ فورس کتنی با شعور،کتنی مخلص اور کتنی تربیت یافتہ ہے ؟خدا جانے یہ ٹائیگر فورس کیا کیا گل کھلائے گی ،بہر حال اب کیا ہو سکتا ہے سوائے صبر کے ،یہ آزمائش کی گھڑی ہے جس میں خدا تو سبھی کا ہے ،اسے تو پتہ ہے کہ میرے بندوں کے ساتھ کون کیسے اور کیا کیا کر رہا ہے،اب صرف یہ دعا کی جا سکتی ہے کہ بھوک سے مرنے سے قبل ہی بھوکوں تک کچھ نہ کچھ پہنچ جائے ورنہ یہاں وہ عالم ہو گا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، آخر میں عوام کی امداد کے نام پر فوٹو سیشن کرانے والوں سے بھی گذارش ہے کہ ایسا کچھ مت کریں جس سے لوگوں کی غربت کے ساتھ سنگین مذاق اور ان کی غیرت ہی کا قتل کیا جانا عام ہو،لگتا ہے عوم کے کورونا سمیت کئی دشمن میدان میں نکل آئے ہیں یہ کس کس سے جنگ کریں۔