Buy website traffic cheap


اب دیکھ لو پاؤں میں زنجیر بھی نہیں

تیغ و سپر نہیں ہے کوئی تیر بھی نہیں
اب دیکھ لو کہ پاؤں میں زنجیر بھی نہیں
زادِ سفر میں کھو دیا اپنے وجود کو
اس بار ہاتھ میں تری تصویر بھی نہیں
شعر و سخن کی بزم سجائی تو ہے مگر
غالبؔ نہیں ہے آج کوئی میؔر بھی نہیں
ماری گئی ہوں اعدا کے لشکر میں بے خطا
میری طرف سے دوستو! تقصیر بھی نہیں
مجھ سے تو شب کے خوف کا عالم نہ پوچھئے
جگنو نہیں ہے بستی میں شب گیر بھی نہیں
وشمہ وطن سے دور میں پردیس آ بسی
آنکھوں میں آج خواب کی تعبیر بھی نہیں

وشمہ خان وشمہ