Buy website traffic cheap

پٹرول بحران کے ذمہ دار پکڑ ے نہیں جائیں گے!

پٹرول بحران کے ذمہ دار پکڑ ے نہیں جائیں گے!

پٹرول بحران کے ذمہ دار پکڑ ے نہیں جائیں گے!
شاہد ندیم احمد
دنیا کا ہر ملک جس کی معیشت میں تیل ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اس نے کورونا کے باعث تیل کی قیمتوں میں آنے والی کمی کا فائدہ اٹھانے اور تیل ذخائر میں زیادہ گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔تیل پیدا کرنے والے ممالک نے جہاں پہلی بار اپنے ذخائر میں اضافہ کیا،ہاں نئے بنکر بھی تیار کیے ہیں، تاکہ وہ مستقبل میں ذخیرہ شدہ تیل کو استعمال میں لا کر ماضی کے خسارے کو پورا کر سکیں۔ اس کے بر عکس پاکستان کے اداروں کی انتظامی مشکل اور کام کرنے کا طریقہ کار عمومی طور پر قومی ضروریات سے کبھی ہم آہنگ نہیں رہا ہے۔ہمارے ہاں زیادہ تر ادارے کسی بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں بنائے گئے،اسی لیے یہ ادارے قومی کی بجائے عالمی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں واقع ہونے والی کمی کا کچھ حصہ عوام تک ضرور پہنچا،لیکن طاقتور مافیا نے اس عوامی ریلیف کو بھی یرغمال بنا لیا ہے،جس کے باعث عوام سستا پٹرول خرید نے سے قاصر ہیں۔ حکومت نے جب پٹرولیم مصنوعات میں کمی کی تو کئی دن تک عوام کو پٹرول مل ہی نہیں سکااوراب بھی کئی شہروں میں پٹرول نایاب ہے،اگر کسی جگہ سے مل بھی رہا ہے تو لوگوں کو کئی گھنٹے تک لائنوں میں لگ کر انتظار کر پڑتا ہے،وزیر اعظم کے ایکشن کے بعد بھی بدستورصورتحال جوں کی توں ہے،کیو نکہ ہربحران کے ذمہ دار جا نتے ہیں کہ وہ پکڑے نہیں جائیں گے۔
یہ امرواضح ہے کہ حکومت کے بروقت اقدامات نہ کرنے کے باعث بحران شدت اختیار کرتا ہے، اگر شروع میں ہی ایسی صورتحال کا سخت نوٹس لے کر ذمہ داروں کا تعین کیا جاتا اور مجرموں کو قرار واقعی سزائیں ملتیں تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے کہ رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں یکے بعد دیگرے آٹا، چینی اور پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ عوام کو حتی الوسع کم قیمتوں پر فراہم کرنے کے حکومتی اقدامات بے نتیجہ ہوکر رہ گئے اور سبسڈی کی غرض سے خرچ کیے گئے اربوں روپے منافع خوروں اور بدعنوان سرکاری اہلکاروں کی جیبوں میں چلے گئے۔ یہ منافع خوروں اتنے دیدہ دلیر ہیں کہ انہوں نے وزیراعظم کے پیٹرول کی سپلائی بحال کرنے کے احکامات بھی ہوا میں اڑا دیے ہیں۔ اس پر نہ صرف پشاور ہائیکورٹ نے نوٹس لیا،بلکہ وزیراعظم نے بھی خصوصی اعلیٰ سطحی اجلاس بلا کر معاملے کی انکوائری کرکے پورٹ منظر عام پر لانے کاحکم دیا ہے،لیکن رپورٹ آنے کے بعد بھی ذمہ داروں کو پکڑا نہ گیا تو تمام کاروئی بے مقصد ہو کر رہ جائے گی۔
پیٹرول بحران پر تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کو پیش کردی گئی ہے اور اس پر کارروائی کرتے ہوئے، انہوں نے ملوث افراد کو گرفتار، کمپنیوں کے لائسنس معطل یا منسوخ کرنے اور ذخیرہ شدہ پیٹرول جبری طور پر مارکیٹ میں سپلائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ وزیر اعظم نے پٹرول کے بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت اوگرا کی رپورٹ پر دی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پٹرولیم کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بحران کی ذمہ دار پٹرولیم ڈویژن بھی ہے۔ تیل کمپنیوں کے پاس وافر مقدار میں تیل موجود تھا، اس کے باوجود پٹرول کی فراہمی کو روکا گیا جس کے بعد ملک میں اچانک مصنوعی بحران پیدا ہوگیا۔ یہ اہم ترین سوال ہے کہ جب ملک میں اوگرا کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے جس کا کام ہی پٹرولیم کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنا ہے تو اس ادارے نے اپنا کام پہلے دن سے ہی کیوں نہ کیا اور وزیرا عظم کو پہلے دن ہی رپورٹ پیش کیوں نہیں کی گئی۔ اگر اب رپورٹ پیش کردی گئی ہے تو کیا سرکاری افسران کو بھی گرفتار کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی یا پھر انہیں کلین چٹ دے دی جائے گی۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں معاملے کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہوئے پیٹرول کے مصنوعی بحران میں ملوث تمام افراد کے خلاف بلا امتیاز قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جانی چا ہئے۔
تحریک انصاف حکومت جب سے آئی ہے، کسی بھی چیز کی قلت نہ ہونے کے باوجود اس کا مصنوعی بحران پیدا کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پہلے مذکورہ شے کی قلت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔عوام آئے روز بڑھتی مہنگائی،ذخیرہ اندوزی اور ناجائزمنافع خوری کے ہاتھوں پریشان ہیں، کبھی آٹا غائب تو کبھی چینی اور اب پٹرول بھی دستیاب نہیں ہے۔در اصل ملک میں کسی چیز کی قلت نہیں،ذخیرہ اندوز مافیا قیمتوں میں اضافہ کرنے کے لیے مار کیٹ سے اشیاء غائب کردیتا ہے۔یہ سب کچھ انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر ناممکن ہے، حکومت جب تک ذمہ داروں کا تعین ہونے کے باوجود سزا وجزا میں سست روی کا مظاہرہ کرتی رہے گی،بحران در بحران آتے رہیں گے۔چینی اسکینڈل پر رپورٹ کب کی آچکی ہے، جس میں واضح طور پر ذمہ داران کے نام موجود ہیں، مگر ابھی تک حکومت نے کسی ایک ذمہ دار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ انتظار کیا کہ وہ مذکورہ رپورٹ کے خلاف عدالت سے حکم امتناع لے آئیں۔ حکومت ہر بحران پرصرف نوٹس لیتی ہے یا تنبیہہ جاری کرتی رہتی ہے،جبکہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے لئے یہ ایک مشکل ہدف ہے کہ وہ بگڑتی معیشت‘ بھارت کی سازشوں‘تنازع کشمیر کے حل‘ کورونا کے خاتمے‘بدعنوان حکمران اشرافیہ کے احتساب اور عالمی ساہوکاروں کے ہاتھ میں کھیلنے والے قومی اداروں کا نظم درست کرنے کی بیک وقت کوشش کریں،لیکن بہرحال یہ کام حکومت کو ہی کرنا ہے کیونکہ حالات کے مارے عوام کی توقعات کا دامن انہیں سے بندھا ہے۔ پاکستان کے عوام جن افراد کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہوئے ان کو عہدوں سے ہٹا کر ان کے خلاف سخت کارروائی ہو نی چاہئے۔ عوام پر امید ضرور ہیں،مگر انہیں یقین نہیں کہ کبھی بحران کے ذمہ دار پکڑے جائیں گے۔ اس وقت پٹرول بحران پر اوگرا کی رپورٹ حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے،یہ درست ہے کہ تیل کمپنیاں انتہائی طاقتور ہیں، تاہم اگر ایک بار ان کے خلاف موثر کارروائی کرلی گئی تو دیگر ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی امید بھی عوام کے یقین میں بدل جائیگی۔