Buy website traffic cheap


نیب اور عدالتوں میں جلوس گردی

تحریر منظور پہلوان
احتساب کا ادارہ نیب زور و شور سے کاروائیاں کر رہا ہے اور یہ علیحدہ بحث ہے کہ بڑے بڑے مقدمات عدالتوںمیں منطقی انجام تک نہیں پہنچ رہے ،وہ سیاستدان جو خصوصاََ کئی دہائیاں اقتدار کی راہداریوںپر قابض رہے ، انہیں نیب انکوائری کیلے
طلب کرتی ہے اور اسطرح تفتیش کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے ، نیب اور عدالتیں تو پہلے بھی تھیں لیکن پچھلی کئی سالوں سے ملک میں ایک نئی ریت چل پڑی ہے کہ خصوصاََ سیاست دان جب نیب یا عدالت میں ملزم کی حیثیت سے پیش ہوتے ہیں تو اپنے کارکنان کا جم غفیر بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ، پیش ہونے کے بعد اپنی بے گناہی کا راگ بھی میڈیا میں الاپا جاتا ہے
ایسے رویے کی ناخوشگوار ابتدا نواز شریف کے دور میں پانامہ جے آئی ٹی سے ہوئی ، جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی تھی اور پھر اس کے خلاف اسی وقت کی حکومت وزراءاور اس میں طلب کئے جانے والے افرادجے آئی ٹی پر خوب برستے،جے آئی ٹی کے ممبران کو ہدف تنقید بنایا جاتا۔حکومتی افراد خوشامد چاپلوسی کی انتہائی حدوں کو بھی پار کر جاتے ہیں اور ریاستی اداروں پر اس طرح گرجتے برستے کہ الامان الحفیظ ۔
بہرحال یہ سلسلہ دراز سے دراز ہوتا گیا اب نیب اور عدالت میں سیاسی رہنماﺅں کی پیشی کے موقعہ پر زیادہ سے زیادہ کارکنان کو منظم طریقہ سے لانے کی سعی کی جاتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ جم غفیر اپنے رہنما کی بے گناہی دستاویزات اور گواہی سے نہیںبلکہ طاقت اور دھونس سے ثابت کرنا چاہتے ہے۔
اب مولانا فضل الرحمان کو نیب میں آمدن سے زائد اثاثے رکھنے پر طلب کیا گیا ہے تو اس کی جماعت کی طرف سے اعلان داغا گیا ہے کہ مولانا اکیلے نہیں بلکہ تیس لاکھ کارکنان بھی نیب میں مولانا کے ساتھ پیش ہونگے۔ کسی بھی تفتیشی ادارہ کو دباﺅ میں لانے کا یہ بھونڈا طریقہ ہے، ادارہ کے خلاف دشنام بازی تو معمول کا حصہ ہے لیکن دنیا بھر میں یہ کہیں بھی نہیں دیکھا گیا کہ ملزم جلوس کے ساتھ تفتیشی ادارہ یا عدالت میں پیش ہو اور اداروں کے خلاف طویل گفتگو کر کے تمام کاروائی کو صفر قراردے اور اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرے۔
راقم نے 2016میں امریکہ کے صدارتی انتخاب کو امریکہ ہی میں دیکھا ، ہیلری کلنٹن اور ٹرمپ کے مابین مقابلہ تھا ہیلری کلنٹن امریکہ کی سابقہ وزیر خارجہ بھی تھیں بڑا زور دار مقابلہ تھا کیونکہ اس انتخاب پر ساری دنیا کی نظریں مرکوز ہوتی ہیں اور
امریکہ کا صدر بننے والہ شخص دنیا میں بھی طاقت ور تسلیم کیا جاتا ہے۔ امریکی ایف بی آئی انتخابات کے دوران ہیلری کلنٹن بارے خصوصاََ دو الزامات پر تفتیش کر رہی تھی ۔ ایک الزام تو سرکاری ای میل اکاﺅنٹ کا غلط استعمال اور دوسرا کلنٹن خاندان کی قائم کردہ کلنٹن فاﺅنڈیشن میں امریکہ سے باہر کے افراد سے عطیات لینے بارے تھا کہ ہیلری نے اپنے عہدہ سے فائدہ اٹھا کر عطیات وصول کیے ہیں ، انتخابی مہم کے دوران ہی کئی مرتبہ ہیلری کلنٹن کو بلایا گیا او ر کئی کئی گھنٹے پوچھ گچھ کی جاتی ، لیکن حیران کن پہلو یہ ہے کہ ہیلری کلنٹن اکیلے ہی پیش ہوتی رہیں ،کوئی جلوس وغیرہ نکال کردھونس نہیں جمائی گئی ، اور نہ ہی ایف بی آئی کے دفتر کے باہر دھواں دھار پریس کانفرنسیں کی گئی اور نہ ہی ڈیموکریٹس نے چینلز پر تماشہ بنایا۔ یہاں پر ہمارے ملک میںعدالتوںمیں جلوس کے ساتھ جانے والے یہ دلیل دیں گے کہ وہاں سیاسی انتقام نہیں ہوتا اور چونکہ ہمارے ملک میں احتساب کے نام سیاسی انتقام رواج بن چکا ہے اس لیے ہم اجتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں ، مان بھی لیا جائے کہ سیاسی انتقام ہے تو پھر بھی عدالت و ادارہ کا احترام سیاسی افراد معین نہیں کریں گے اورہجوم ِ بےکراں کو امن و امان تہ و بالا کرنے پر اکسائیں گے تو کیا یہ ملک کی خدمت ہوگی ؟ ہرگز نہیں آپ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مباحثہ کے زریعہ سے اپنا موقف دیں اور معاشرہ کو مثبت راہ پر ڈالیں ۔ صدیوں پہلے سقراط نے قانون کی پاسداری میں زہر کا پیالہ پی لیا تھا حالا نکہ اسے قید سے فرارکرانے کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔
جس طرح اس ملک میں ہونے والے ہر انتخابات کو دھاندلی زدہ کہا جاتا ہے اسی طرح ہر احتسابی عمل کو بھی متنازعہ گرادانا جاتا ہے ۔ اس متزلزل اور متذبذب رویہ کے ذمہ دار بھی ایسے سیاست دان ہیں جو کہ پچھلی کئی دہائیوں سے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان رہے اور انہوں نے احتساب کو غیر جانبدار بنانے کی سعی جان بوجھ کر نہ کی۔ ججز کو ماضی میں فون پر مخالفین کو سزا دینے کی ہدایت کی آڈیو پوری دنیا سن چکی ہے، اور پھر حد تو یہ ہے کہاس ضمن میںمعافی بھی نہیں مانگی گئی۔ ہمارے ہاں سیاست کے رنگ و بو بھی عجب ہیں۔سیاست دان آمر سے بھی عمل ِآمریت میں دو چار قدم آگے نظر آتے ہیں۔اقتدار کلی پر قبضہ اور مخالفین کو تہس نہس کرنے کے ساتھ اپنی اور اپنے اقربا ءاور حواریوں کی دولت کو بڑھاناان کا مقصود اول نظر آتاہے۔
ملکی بقا ءاور عوام کی فلاح و بہبود ثانوی حیثیت قرار پاتی ہے۔ میرٹ کو روند کر اپنے من پسند افراد کو سرکاری نوکریاں دینا اور نوازنا معمول قرار پاتا ہے۔ اگرہمارے جمہوری حکمران ڈھنگ کا طرز حکومت اپناتے اور صحیح جمہوری اقدارپر گامزن ہوتے تو ترکی کی طرح یہاں بھی عوام کی انکا تخت الٹنے پر اجتجاجاََ باہر نکلتے’ لیکن ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ملک میں جب بھی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا گیا تو عوام نے مٹھایاںتقسیم کیںاورسکون کا سانس لیا کیونکہ کرپشن میں لت پت سیاستدان اس معاشرہ میں قابل نفرت بن چکے ہیں ۔کوچہ ِ سیاست پارسائی حکمت اور خدمت کی بجائے لوٹ مار اقرباءپروری اور منی لانڈرنگ زریعہ بنا دیا گیا۔ایسے سیاسی افراد کی بھیڑ ہے جو کہ کچھ دہائی پہلے مالی خستہ حالی کا نمونہ تھے لیکن سیاست میںاثر و نفوذکے بعد اب مال و دولت ان کی باندی ہے اور یقینا بغیر کسی کاروبار اور محنت کے کثیر دھن دولت کا انبار انکی لوٹ مار کا کھلا ثبوت ہے ا یسے افراد ہر شہر میں لوگوں کی نظروں کے سامنے ہیں۔
ہمارا قانون یقناََ خستگی کا شکار ہو چکا ہے بلکہ اس قانون کے بال و پر رشوت اور بددیانتی کی تلواروںسے کاٹ دیے گئے ہیں، اس خستگی کی حالت میں بھی سیاستدان قانون کو تہہ و بالا کرنے کے درپے ہیں ۔ مہذب معاشرہ قانون کے سقم دور کر کے اسے طاقتور بناتا ہے لیکن ہمارے سیاستدان اس لولے لنگڑے قانونِ احتساب کو بھی مردہ تن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ معاشرہ میں بد امنی اور لوٹ مار کے ذمہ دار کرپٹ سیاستدان ہیں ہر شعبہ میں عناصرِبد کا اتحاد ملک اور معاشرہ میں رنج و الم’ غربت اور بد امنی کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے، سیاستدانوں نے نیب اور عدالتوں میں پیشی پر یہی طرز عمل اپنایا تو خدشہ ہے کہ ماضی میں سپریم کورٹ پر حملہ جیسے واقعہ سے بھی بڑا واقعہ ہ جنم لے سکتا ہے۔ اسطرح یہ ملک کی بدنامی کا سبب بن جائے گا۔ سیاست دان خود ہی مثبت سوچ کا مظاہرہ کریں اور ایسی حرکا ت فی الفور بند کر دی جائیں اور یہ ایسا نہیں کرتے تو سپریم کورٹ خود نوٹس لے کر اس جلوس گردی اور ہلڑ بازی پر پابندی عائد کرے اور خلاف ورزی کرنے والے کو دہشت گرد قرار دیکر ملک کو کسی بھی نئے سانحہ سے بچایا جائے، سیاسی آزادی اور بنیادی حقوق کی آڑ میں شر پسندی کو فی الفور روکنے کی ضرورت ہے وگرنہ جلوس گردی کی یہ ریت بہت کچھ بھسم کر دے گی۔عدالتوں میں پیشی کے موقعہ پر جلوس گردی انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا ایک زریعہ بنایا جا رہا ہے۔