
(اماوس کی رات) …. محمد طیب زاہر
(اماوس کی رات)
محمد طیب زاہر
پاکستان تحریک انصاف اس وقت بحران پر بحران کا شکار نظر آتی ہے۔پیٹرول مجموعی سطح پر تو سستا کردیا گیا ہے لیکن مافیا کو یہ گوارہ کب تھا کہ عوام کو ریلیف مل سکے۔پھر کیا تھا تیل کو بلیک کردیا۔وزیر اعظم نے نوٹس لیا اور مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا بھی حکم صادر کیا لیکن اب تک کچھ ہاتھ نہیں آیا غریب عوام اب بھی حسرت بھری نگاہوں سے سستا پیٹرول ملنے کی منتظر ہے۔اس آس میں کے مافیا کو لگام ڈال کر ان کی تکلیف میں کچھ ریلیف کا عنصر بھی شامل ہوجائے۔بقول شاعر
اب آس کا دیا جلائے
اپنی شہ رگ ہی نہ کٹ جائے
آنکھوں میں سموئے کہیں
آس کے بادل ہی نہ جھٹ جائے
لیکن افسوس کے آس کے بادل جھٹ رہے ہیں وزیر اعظم بارہاں اس کوشش میں ہیں کہ پیٹرول کے سستے ہونے کا ثمر عام عوام تک پہنچے لیکن منظر اس بات کی لکیریں پیٹ رہا ہے کہ حکومت نا اہل ہے جو مافیا کے آگے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔اسی طرح چینی کء مٹھاس کرواہٹ میں بدل رہی ہے کیونکہ یہ بھی مافیا کے شکنجے میں ہے اور ان مافیا کی شاخوں میں سے ایک شاخ کے تانے بانے حکومتی بینچوں سے جاملتے ہیں۔امیر ترین اور ہر چیز میں با اختیار خسرو بختیار بھی بلواسطہ اس گورکھ دھندے میں ہیں برابر کے حصیدار۔
اسی طرح کورونا وبا جو کہ عالمی سطح پر اپنا تسلط جمائے ہوئے ہے لیکن وزیر اعظم کے بقول ایک طرف عوام کو کورونا سے بچانا ہے تو دوسری طرف بھوک سے بھی اب ان دونوں صورتوں سے نمٹنا بھی حکومت کا کام ہے۔ایک حلقہ اس ضمن میں حکومتی کاوشوں کا اعتراف کرتا ہے تو دوسرا مکتبہ فکر اس کو ہدفِ تنقید بناتا ہے گو کہ حکومت کو اس معاملے میں نااہل گردانتا ہے۔پھر کورونا ختم نہیں ہوا تو ٹڈی دل نے بھی فصلوں پر اپنے ارمان پورے کرنا شروع کردئیے جس کے باعث حکومت کے آنسو بہنا شروع ہوگئے. ادھر بھی کہا گیا کہ حکومت نے بھروقت اسپرے نہیں کروایا جس کی وجہ سے ٹڈیوں کی شورش نے فصلوں کو نقصان پہنچانا شروع کردیا ہے۔جبکہ وزیر اعظم وسائل کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔یہاں بھی نا اہلی کی ایک جھلک ہمیں ملتی ہے۔ابھی وزیر اعظم کو ان فکروں نے ستایا ہوا تھا تو اختر مینگل نے ان کی حکومت پر اُس وقت خودکش حملہ کردیا جب کہ حکومت ان مذکورہ مسائل میں پھنسی ہوئی تھی۔انہوں نے حکومت سے اپنے آپ کو ہاؤس آف دی فلور پر الگ کرنے کا اعلان فرمایا یوں حکومت کے تابوت میں مسائل کا ایک اور کیل ٹھوک دیا۔اب سوال یہ ہے کہ یہاں بھی حکومت کی نا اہلی سامنے آئی۔کیونکہ وہ کیوں اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر نہیں چل پائی۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومتی اتحادی اپنی مفادات کے لئے وزیر اعظم کو بلیک میل بھی کرتے ہیں اور اب سردار اختر مینگل کے فیصلے کے بعد تو باقی ماندہ اتحادیوں کی تو چاندی ہوجائے گی (اگر ناراض اختر مینگل واپس شامل نہیں ہوجاتے)اس موجودہ صورتحال میں یہ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔وزیر اعظم عمران خان کو پہلے ہی اس طعنے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ مانگے تانگے کی حکومت ہے۔اپوزیشن کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتی ہے کہ آپ اپنے ممبرز کی تعداد ڈکلئیر کریں اس دوران ایسے میں کوئی اور (ہاتھ) ہوجاتا ہے تو حکومت کا تختہ بھی اُلٹ سکتا ہے۔لیکن اس ساری صورتحال میں اب بھی پوری طرح سے گیم حکومت کے ہاتھ سے نکلی نہیں ہے۔سردار اختر مینگل کے اس بیان میں کہیں نہ کہیں حکومت کے لئے ایک اُمید کی کرن جھلک رہی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے ہم سے مذاکرات کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی ہے لیکن اب تک ہم سے کوئی مذاکرات کرنے نہیں آیا جو اس بات کا عندیہ ہے کہ سردار اختر مینگل حکومت سے negotiate کرنے کے لئے تیار ہیں ورنہ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے حکومت ؐمذاکراتی ٹیم بنائے یا نہ بنائے مذاکراتی ٹیم مذاکرات کرنے آئے یا نہ آئے اب میں واپس نہیں آؤں گا گو کہ وہ آواز دینے پر واپس پلٹ سکتے ہیں اس کے امکانات اپنی جگہ روشن ہیں۔صادق سنجرانی کے ساتھ ملاقات میں اگرچہ انہوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے صادق سنجرانی سے یہ بھی شکوہ کیا ہے کہ جاکر حکومت سے پوچھیں بلوچستان کے حوالیسے اب تک وعدے کیوں نہیں پورے کئے۔یعنی اگر ان کو حکومت کی طرف سے یہ یقین دلادیا جائے کہ آپ سے کئیگئے وعدے وزیر اعظم پورا کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں اور ایسے میں سردار اختر مینگل وزیر اعظم سے ملاقات کے لئے راضی ہوجاتے ہیں تو قوی امکانات ہیں کہ وہ واپس لوٹ آئیں گے۔بلوچستان یقینی طور پر احساس محرومی کا شکار رہا ہے وہاں یقینی طور پر بہت سے مسائل ہیں لیکن این ایف سی ایوارڈ کے تحت اس صوبے کو بھی اپنے فنڈز ملتے ہیں اگرچہ اٹھارویں ترمیم کے کچھ نکات پر وفاق کو اعتراض ہے لیکن پیپلز پارٹی کے بقول اس نے تمام صوبوں کو اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کو با اختیار بنایا ہے.اختر مینگل نے پچھلے سال بھی بجٹ سے پہلے بھی حکومت سے علہیدہ ہونے کی بات کی۔اتحادیوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہر اتحادی جماعت اپنی اہمیت جتانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالتی آئی ہے۔اور اب اسی دباؤ کا سامنا کبھی مسلم لیگ ق کی صورت کبھی ایم کیو ایم پاکستان کی صورت تو کبھی بی این پی کی صورت وزیر اعظم عمران خان کو کرنا پڑ رہا ہے۔وزیر اعظم کو روٹھے ہوئے کو منانا صرف اس لئے ضروری نہیں کہ اس کو اپنے نمبر آف گیمز برقرار رکھنا ہے بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے باقی (آس پاس) کے اتحادیوں کو بھی پر نہ لگ جائیں وہ پہلے ہی پھڑپھڑا ضرور رہے ہیں۔کہنے کا مقصد اتنا ہے کہ حکومت کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ اس مسئلے سے کم از کم اپنی جان چھڑا سکتی ہے لیکن خطرہ ابھی اس پر سے ختم نہیں ہوا۔مسائل کی بات کر ہی رہا ہوں تو ایک اور تازہ مسئلہ جو حکومت کے آگے سیسہ پالائی دیوار بن گیا ہے وہ ہے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کا فیصلہ جو حکومت کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے اس کیس میں سپریم کورٹ نے حکومت کا ریفرنس بدنیت قرار دے کر رد کرتے ہوئے اس کو خارج کردیا ہے۔یوں حکومت کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔فروغ نسیم جو حکومت کے وکیل تھے یعنی ریاست بمقابلہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے اس میدان میں حکومتی وکیل کو منہ کی کھانا پڑی۔ یہاں بھی حکومت کی نا اہلی یا وکیل کی نا اہلی کہہ لیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔حکومت کے بقول اس کے پاس کافی مواد تھا جس کی بنیاد پر اس نے صدر کے ذریعے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا۔اب چونکہ عدالتی ریمارکس (حکومتی بدنیتی کی بنیاد پر اس ریفرنس کو خارج کیا جاتا ہے) حکومت کے لئے بہت زیادہ لمحہ فکریہ خیال کیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔لیکن اس میں اختر مینگل کے معاملے کی طرح اُمید کی ایک کرن ہے۔گیم اب بھی آن ہے فُل کورٹ بینچ کے دس ججز میں سے سات ججز نے معاملہ ایف بی آر بجھوادیا ہے۔کچھ مبصرین کی رائے میں عدالت کو کسی صورت ایف بی آر پر معاملہ نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ وہ انصاف نہیں کرسکتا۔یعنی اس بات کا اندیشہ ہے کہ حکومت ایف بی آر پر اثر انداز ہوکر سپریم کورٹ کے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ابھی حکومت کے پاس ایک موقع اور ہے اگر وہ ٹھوس ثبوت ایف بی آر کے ذریعے لاتے ہیں تو جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کا فیصلہ بدل سکتا ہے۔حکومت پر تنقید اس لئے بھی ہو رہی ہے کہ وہ انتقام لے رہی ہے۔کیونکہ اس کو فیض آباد دھرنے پر قاضی فائز عیسی کے دئیے گئے فیصلے کا بدلا لینا تھا۔جو بھی ہو حکومت کے لئے یہ معاملہ بھی بہت پیچیدہ ہوگیا ہے عدالت کے تفصیلی فیصلے کے بعد عمران حکومت کے لئے مزید مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں کہ اب اس تفصیلی فیصلے میں کیا تلوار حکومت پر گرسکتی ہے اس کا فیصلہ بھی جلد ہونے کو ہے۔اپوزیشن اس معاملے کو کیش کرانے نکل پڑی ہے۔متحدہ اپوزیشن اس کو حکومت کی بدنیتی اور عدلیہ کی جیت قرار دے رہی ہے۔لیکن یہی اپوزیشن ہے جو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود سوئس حکومت کو خط نہیں لکھتی یہی متحدہ اپوزیشن ہے جو نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد معزز جج صاحبان کو بغض سے بھرا ہوا قرار دیتی ہے۔یہی اپوزیشن عدلیہ کے خلاف منظم انداز میں کمپین چلاتی ہے۔یہی اپوزیشن سپریم کورٹ پر حملہ کرتی ہے یہ کس منہ سے آج عدلیہ کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔خیر اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں حکومت کے لئے اماوس کی رات ہے جو کب ختم ہوتی ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔