Buy website traffic cheap


انسان کی تلاش

انسان کی تلاش
صفدر علی حیدری
ایک بڑے آدمی نے بڑی ”عاجزی ”سے کہا۔
ارے صاحب! ہم کہاں مہاں کے صاحب علم ہیں؟ ہم تو علماء کی جوتیاں بھی سیدھی کرنے کے قابل نہیں۔ جواباًمیرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ بے شک بجا فرمایا۔ منکسرالمزاج عالم فاضل آدمی نے جھلا کر کہا ”جناب میری دس کتابیں منظر عام پر آکر شہرت دوام پا چکی ہیں۔علمی و ادبی حلقوں میں خاکسار کا بڑا نام ہے۔ بس کبھی غرور نہیں کیا۔”میرا ہنسی روکنا مشکل ہو گیا تھا۔
باب مدینۃ العلم کا فرمان ذیشان ہے۔”خدا جس کو عاجز کرنے کا ارادہ فرما لیتا ہے اس کے دل سے عاجزی چھین لیتا ہے۔”آج جب میں اپنے ارد گرد نگاہ دوڑاتا ہوں تو مجھے ہر آدمی فرشتہ دکھائی دیتا ہے بس کوئی انسان نظر نہیں آتا۔آج اترانا فیشن اور عاجزی احساس برتری کا ایک جدید انداز بن کر رہ گیا ہے۔جب ہم میں سے اکثر لوگ عاجزی کی اداکاری فرما رہے ہوتے ہیں تو کان منتظر ہوتے ہیں کہ جواباً لوگ اسے ہماری عاجزی کے عظیم مظاہرے پر محمول کرتے ہوئے نا صرف یہ کہ ہمارے اس جذبے کو سراہیں گے بلکہ ہماری تعریف میں رطب اللسان بھی ہوں گے۔
نا جانے علمی و ادبی حلقوں میں یہ رجحان خطرناک حد تک بڑھا ہوا کیوں دکھائی دیتا ہے کہ ہمیں دوسروں میں محض کیڑے ہی کیوں نظر آتے ہیں۔ کافر،شرکی، بدعتی، غیر مقلد،اندھا مقلد، منکر حدیث، رافضی، خارجی،ناصبی، شدت پسند، دقیا نوسی،انتہا پسند، بنیاد پرست اور اس جیسے کئی ایک قابل نفرت الفاظ میں بڑے تواتر کے ساتھ ہماری سماعتوں میں اپنا نفرت بھرا زہر انڈیلتے رہتے ہیں اور ایسا اس طبقے میں ہو رہا ہے کہ جنہوں نے قوم کی اصلاح کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔وہ لوگ جن کو مخالف فرقے کے لوگوں کے بس عیب نظر آتے ہیں اور جو دن رات ان کو کافر کہنے اور ان کو ٹھیک ہو جانے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔میرا یہ دعویٰ ہے کہ ان متعصب لو گوں کو کبھی یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ وہ ان ”کافروں ”کیلئے اصلاح کی دعا کرپاتے۔ جبکہ ادبی حلقوں میں مخالف گروپ کے ادیب کو جینوئن تو رہا ایک طرف سرے سے ادیب ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پی ایچ ڈی زدہ ادیبوں پر بھی سرقہ کا الزام لگا کر ان کی تعلیم کو ان کیلئے عیب بنا دیا جاتاہے۔کس قدر ستم ظریفی ہے کہ اس عہد کے دو نامور شعراء ایک دوسرے کو سرے سے شاعر ہی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ان سے تو وہ نیا ادیب ہی اچھا تھا جو بول اٹھا کہ یہ دونوں بزرگ مذاق فرما رہے ہیں یہ دونوں عظیم شاعر ہیں۔کہتے ہیں بیوی کو ساری خرابیاں اپنے مرد میں اور ساری خوبیاں اپنی اولادمیں نظر آتی ہیں۔چلیں یہ تو ”ناقص العقل ”عورتوں کی باتیں ہیں جن سے عقل کی امید عبث ہے۔یہاں تو حال یہ ہے کہ دو نامور ادیبوں نے آپس کی لڑائی میں لڑاکا عورتوں کو بھی مات دے ڈالی اور نوبت ننگی گالیوں تک جا پہنچی۔ان کے کالم باہمی دشمنی کی نذر ہو کر رہ گئے۔کہاں گئے وہ سیانے اور کہاں گئے ان کی باتوں پر عمل کرنے والے جو کہا کرتے تھے کہ برائیاں صرف اپنے آپ میں اور خوبیاں صرف دوسروں میں دیکھو اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہمیں عیب صرف دوسروں میں اور خوبیوں صرف اپنی ذات میں مرکوز نظر آتی ہیں۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے جو اپنی جامعیت کے اعتبار سے ایک ضخیم کتاب کا متقاضی ہے۔ جب ہمیں کبھی اپنی اصلاح کا خیال آتا ہے تو ہم فوراً دوسروں کی ہدایت کیلئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔اس روایت کو بدلتے ہوئے میں اپنی چند خامیاں یہ سوچ کر آپ کے گوش گزار کر رہا ہوں کہ آپ مجھے مناسب مشورہ دے کر میری اصلاح فرمائیں گے۔
مجھے جھوٹ سے سخت نفرت ہے خاص کر جب دوسرے بولیں اور مجھے صرف سچ سننا اچھا لگتا ہے مگر دوسروں کے منہ سے۔نا جانے کیوں جب بھی مجھے کوئی واقف کار نظر آتا ہے تو فوراً مجھے اس کی کوئی نہ کوئی خامی نظر آجاتی ہے۔گویا میں اسے کسی نہ کسی خامی کے حوالے سے یاد رکھتاہوں۔ دنیا کا جھوٹے سے جھوٹا آدمی بھی جب کسی کی کوئی خامی بتاتا ہے تو میں آنکھ بند کر کے فوراً ایمان لے آتا ہوں۔لیکن دنیا کا صادق سے صادق شخص بھی جب کسی کی کوئی تعریف بیان کرتا ہے تو میرا دل نہیں مانتا اور تا مل کا شکار ہو جاتا ہے۔میں گرانے پہ آتا ہوں تو کسی ایک خامی کے سبب کسی کو بھی انسانیت کے درجے سے ہی گرا دیتا ہوں اور اگر تسلیم کرنا پڑے تو تب تک نہیں مانتا جب تک مجھے ہر طرف سے فرشتوں جیسا نہ لگے۔سو مجھے اس کی کوئی نہ کوئی خامی (ذات، برادری، زبان، مسلک، رنگ، نسل اور صورت کی صورت میں) نظر آہی جاتی ہیں اور یوں بجائے تسلیم کرنے کے اسے رد کر دیتا ہوں۔مجھے پیار ہے تو فقط اپنی ذات سے اسی لیے اپنا برے سے برا عمل بھی حَسین لگتا ہے۔(کبھی یہ کام شیطان کیا کرتا تھالیکن اب اس اہم کام کی ڈور میرے ہاتھ میں ہے)
مولانا روم نے صدیوں پہلے دن کے وقت ایک آدمی کو چراغ جلا کر انسان ڈھونڈتے دیکھا لگتا ہے ا س کی تلاش اب تک جاری ہے اور آج صورت حال یہ ہے کہ گھر چھوڑ کے جنگل کی طرف بھاگ رہا ہوں شاید کوئی انساں درندوں میں چھپا ہو۔ہم جائیں تو کہاں جائیں ہمیں تو لگتا ہے کہ یہ نفرتیں مرنے کے بعد بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔ایک جنت تھی سو عرصہ ہوا اس پر مختلف فرقے کے لوگ پہلے ہی اپنا تسلط جما چکے ہیں اور جہنم کو تو کب کا مخالف فرقے کے لوگوں سے بھر بھی چکے ہیں۔اب اس میں اتنی بھی جگہ باقی نہیں کہ کسی ایک کافر کو اپنے اندر سمو سکے۔نا جانے یہ سارے کافر کہاں جائیں گے؟
کسی نے کیا اچھی بات کہی تھی ”تم کو بھی غم نے مارا ہم کو بھی غم نے مارا اس غم کو مار ڈالواس غم کو مار ڈالو ”تو یہ نفرتیں ہماری مشترکہ دشمن ہیں جن کے خلاف مشترکہ جہاد درکار ہے۔ میرے اکثر کالم نگا ر دوست مسائل کا تو رونا روتے ہیں مگر حل پیش نہیں کرتے چلیں ہم ہی اس بدعت کو ختم کرتے ہیں۔آئیں ایسے تمام الفاظ جن سے انسان کی دل آزاری ہوتی ہو اپنی لغت سے نکال دیں۔ زبانوں پر آنے اور ذہنوں پر چھانے سے انہیں اپنی یاداشت سے کھرچ کر نکال باہر کریں۔اپنی بدعت کو بدعت حسنہ اور دوسرے کی بدعت کو بدعت قبیحہ کہنے سے پہلو تہی کرنا ہوگی تاکہ نفرتوں سے بچا جاسکے۔بندہ جائے تو جائے فقرہ نا جائے کی بجائے فقروں پر انسان کو ترجیح دینا ہوگی کیونکہ حدیث مبارکہ کے بقول ”انسان پیار کیلئے ہوتے ہیں اور چیزیں استعمال کیلئے۔ اور بگاڑ تب پیداہوتا ہے جب چیزوں سے پیار کیا جائے اور انسان کو استعمال کیا جائے”
کسی فلم کے ہیرو نے ایسی ہی کسی صورت سے تنگ آکر کہا تھا ”ایک میں ہی برا ہوں باقی سب لوگ اچھے ہیں ”کتنی پیاری بات کہی تھی کاش اس نے دل سے کہا ہوتا وہ بھی تو جل کر بولا تھا۔ اگر میں برا ہوں تو تم کون سے فرشتے ہو۔کوئی ایسا آ دمی کبھی آپ کو مل جائے جس کی نظر میں دوسروں لوگ اس سے اچھے ہوں تو مجھے ضرور مطلع فرمائیں کہ ایک مدت ہوگئی ہے ایسے کسی انسان سے ملے ہوئے۔کیونکہ ہر ایک شخص کو دعویٰ ہے پارسائی کا سبھی فرشتے ہیں یارو کوئی بشر بھی ہییہ دنیا تو پیار کا پھیلاؤ ہے اور کسی کے پیارمیں بنائی گئی یہ دنیا صرف پیار سے ہی ٹھیک رہ سکتی ہے۔ آئیں پیار کریں، پیار بانٹیں اور پیار ڈھونڈیں۔کہ صرف پیار ہی ہر فرد کی اولین ضرورت ہے۔محبت جہاں ہو وہاں زندگی ہے محبت نہ ہو تو کہاں زندگی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔