Buy website traffic cheap


موت کی آواز!

محمد علی رانا
میں ڈرتا ہوں اُس لمحے سے کہ جب موت میرے سامنے ہوگی۔نہ جانے اُس گھڑی وہ کہاں اور کِس حال میں مجھے پائے گی؟پتہ نہیں میں باوضو بھی ہوں گا یا نہیں؟علم نہیں اُس گھڑی میرے کپڑے پاک ہوں گے یا ناپاک؟خدا جانے میری پاکیزگی کا کیا عالم ہوگا؟ کہیں بے موت ہی نہ مارا جاوں،کہیں کسی تخریب کاری کا ہی شکار نہ ہو جا وں؟ناجانے میرے وجود کو دفنانے کیلئے سمیٹنا پڑے،یا معلوم نہیں وجود ہی نہ ملے؟ یارب! میرے لاشے کو غسل بھی ملے گا یا نہیں؟ پتہ نہیں مجھے کفنایا،دفنایا بھی جائے گا یا نہیں؟؟؟”بے شک موت برحق ہے مگر کفن پر شک ہے“۔پس اب تو ہر گھڑی جیب میں اپنا بائیوڈیٹا،ایڈریس ٹیلی فون نمبرز ڈال کر رکھتا ہوں۔
:مرنے کے بعد تو انسان کے پہنے ہوئے کپڑے تک اُتار لیے جاتے ہیں اور گھر والے ہی کہتے ہیں چلو جنازہ اُٹھاو چلیں۔وہی آپ کے اپنے جو آپ سے بے انتہا پیار ومحبت کا اظہار کرتے تھے۔آپ کی صورت کے دیدار کو ترستے تھے،جو آپ کی تنہائی کے متلاشی تھے،آج آپ کے جنازے کے ساتھ ایک رات بھی تنہائی میں گزانے سے کتراتے ہیں۔جو آپ کی حیات میں آپ کے ساتھ ہر خوف سے آزاد رہتے آج وہی آپ کے لاشے سے ڈرنے لگتے ہیں۔مگر اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی رحیم و کریم ہے۔وہ فرشتوں سے فرماتا ہے جاوخواں یہ گنہگار ہے یا نیک، میرے پاس ہی لے آوکیوں کہ اب اِسے کوئی نہیں اپنائے گا۔
میری نگاہوں اور وجودنے شہرِ قبرستان کا کئی بار مشاہدہ اور طواف کیا ہے۔یقین جانیں!وہاں وحشت نما خاموشی اوردِل چیرنے والی چیخوں کا ایک عجیب سابندھن ہے۔ جو وقتا فوقتاایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوششوں میں مشغول رہتی ہیں۔”موت کا دیدار قبرستان کی چار دیواری کے اندر انتہائی پُرسکون انداز سے کیا جاسکتا ہے“۔ قبرستان میں وہاں اُن لحد مالکان کے پاس سوائے اُس اپنی کچی یا پکی قبر کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔کبھی کبھی تو اپنی قبر بھی اپنی نہیں رہتی۔سکندرِ اعظم جِس نے تقریبا دُنیا پر حکومت کی اُس کی وصیت تھی کہ جب میں مروں تو میرے دونوں ہاتھ کفن سے باہر لٹکادینا،تاکہ دنیا والے سمجھ لیں کہ میں اِس قدر ملکیت رکھنے کے باوجود بھی خالی ہاتھ ہی جا رہا ہوں اور بلآخر موت جیت گئی ہے۔
اِس دنیا داری کا ذائقہ یا سکون اور لطف و مزہ صرف تب تک ہے جب تک کہ موت سے آمنا سامنا نہ ہو جائے۔”آپ یقین جانیئے!میں ڈرتا ہوں ہر صبح کے سورج سے کہیں یہ میری حیات کا آخری سورج نہ ہو اور ڈرتا ہوں ہر رات کی سیاہی سے کہیں یہی میری نگاہوں کے سامنے موت کی تاریکی نہ لے آئے“۔موت ہمارے تعاقب میں ہے مگر ہم اِس حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں۔”زندگی،زندگی میں صرف ایک بار ملتی ہے‘ یہ کوئی گیم نہیں کہ دوسرا چانس بھی ہو“
موت کی آواز سنو۔۔۔!ہوش سنبھالنے سے لے کر ایامِ آخر تک رفتہ رفتہ تیز ہوتی سُنائی دے گی۔موت ہم سے کچھ کہنا چاہتی ہے،وہ ہماری دشمن یا حاسد نہیں۔واصف علی واصفؒ کا قول ہے: ”جو کِسی مقصد کے لیے مرتے ہیں وہ مرتے نہیں ہیں،اور جو بے مقصد جیتے ہیں وہ جیتے نہیں ہیں“۔دوسری جگہ فرماتے ہیں:”پسندیدہ چیز سے جدائی موت ہے۔جِن کی پسندیدہ چیزیں موت سے پرے ہیں اِن کو مرنا آسان ہے۔جِن کی پسندیدہ چیزیں یہاں رہ جائیں گی اِن کیلئے موت مشکل ہے“
”جسے آخرت کے عذابات،جنت،جہنم،حقائق،عالم قبور، عالمِ برزخ،روزِ محشر،جزا و سزا پر یقین ہوگا،وہ ہی دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب ہے۔ ”سامانِ آخرت باندھ کر رکھیں نہ جانے کِس سفر پر زندگی کااختتام و انجام ہوجائے“۔اللہ پاک ہم سب کی مغفرت فرمائے اور کل مومن اور مومنات کو جہنم کی آگ سے بچائے (آمین)
”آپﷺ فرما دیں وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو اس کا ضرور تم سے سابقہ پڑے گا، پھر تم اس کی طرف لوٹا دیے جاو گے جو چھپے اور ظاہری کا علم رکھتا ہے پھروہ تمہیں بتا دے گا جو عمل تم کرتے تھے۔ (سورة الجمعہ،آیت نمبر 8)“
حدیثِ مبارکہ ﷺ:حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاَ ”لذتوں کو کھو دینے والی موت کو بہت یاد کرو“۔(مشکوٰة شریف)
خلیفہ راشد،خلیفتہ المسلمین،فاتح خیبر،دامادِ رسول ﷺ،شیرِ خدا امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے: ”جو موت پر کامل یقین رکھتا ہے وہ دنیا کی ناجائز لذتوں کے پاس بھٹکتا تک نہیں۔جِس نے دنیا کی حقیقت پہچان لی‘ مصیبتیں اس پر آسان ہو جاتی ہیں“۔
خوب کہا غالب صاحب نے: موت کا ایک دن معین۔۔۔نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
دوستوں کیلئے میری کتاب ”کاش میں بیٹی نہ ہوتی“ میں سے ایک تحریر پڑھیں اور اپنے ایمانوں کو تازہ کریں۔
تحریر: (افسانہ و ڈرامہ نگار) محمد علی رانا