
شہر خواب۔۔۔۔۔ صفدر علی حیدری
تقسیم در تقسیم
گئے دنوں کا ذکر ہے کہ کسی علاقے میں ایک بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا –
اس کے عہد حکمرانی میں کسی بدطینت نے خدائی دعویٰ کر ڈالا۔
بادشا ہ چونکہ موحد تھا سو وہ اس حرکت پرخاصا سیخ پا ہوا –
اس نے چند سپاہیوں کو اس بدبخت کی گرفتاری کے لیے روانہ کر دیا۔
جلد ہی اسے گرفتارکر کے بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔
ابھی اس کے مستقبل کے بارے میں کوئی حکم صادر ہونا باقی تھا کہ بادشاہ کو ایک ایسے بدبخت کی گرفتاری کی اطلاع ملی جو نبوت کا دعویٰ دار تھا۔
جب بادشاہ کے روبرو لایا گیا تو جھوٹے خدا نے چیخ کر کہا
”بادشاہ سلامت یہ انتہائی جھوٹا اور مکار آدمی ہے اسے میں نے ہر گز نبی مبعوث نہیں کیا“۔
آپ اس واقعہ کو پنجاب کی مجوزہ (متنازعہ)تقسیم (بلکہ بندر بانٹ کہنا زیادہ مناسب ہوگا) کہ حوالے سے دیکھیں گے تو صورتحال روشن دن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ مسجد بنی نہیں اور پہلے ہی سے مولویوں کا میلہ سا لگ گیا ہے۔
ناجانے اس ”فرضی“ اور اپنی مرضی کی بندر بانٹ کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
کم از کم عوام کے لیے تو اس میں کوئی بد خبری ہی چھپی ہوگی۔
ملتان شہر کی ہمدردی میں غرق طبقہ سرائیکستان کے نعرے لگا رہا ہے تو ایک دوسرا طبقہ صوبہ بہاولپور کی بحالی کے دن رات راگ الاپ رہا ہے-
جبکہ پنجاب کی تقسیم بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور کا حصہ ہو تو ہو ذہن و شعور کا ہرگز نہیں۔
وسیبی عوام خاموش تماشائی بنی حواس باختگی کے عالم میں ادھر اُدھر دیکھ رہی ہے کہ جانے اس ڈرامے بازی کا انجام کیا ہوگا؟
تاہم صورتحال خاصی ہنگامہ خیز ہے۔ ا خبارات میں مختلف الخیال لوگوں کی بھانت بھانت کی بولیاں پڑھ کر یوں لگا کہ پانی میں مندھانی چلائی جا رہی ہے۔
انا کے اس گھناؤنے کھیل میں ہر آدمی اپنے اپنے خول میں بند ہو کر صرف اپنی کہے جارہا ہے۔
وہ دوسروں کو انسان تو رہا ایک طرف اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ اس کے وجود کو تسلیم کر سکے۔
ہر کھیل کے کچھ ضابطے کچھ قاعدے ہوتے ہیں۔
محبت اور جنگ میں سب جائز ہے کا نعرہ لگانے والے اپنی اسلامی معلومات اور اپنی دینی تفہیم کی فکر کریں۔
سب جائز کبھی بھی نہیں ہوتا۔
پیالی میں طوفان اُٹھائے جانے کے اس کھیل میں سب جائز ہے کا غیر اسلامی اصول کار فرما دکھائی دیتا ہے۔
جب ایسا ہونے لگے تو پھر فری اسٹائل جیسی نورا کشتی ہی ہوتی ہے۔
جس میں بظاہر لوگ”فری“ نظر آتے ہیں حالانکہ ان کی فکریں غیر کے ہاتھوں گروی اور مغلوب ہوتی ہیں (جبھی تو معطون و معتوب سمجھی جاتی ہیں)
اس نوراکشتی اور فلم کی شوٹنگ میں صرف لائیو اور ریکارڈنگ کا فرق ہوتا ہے پھر بھی یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ عوام دونوں سے یکساں محظوظ ہوتی ہے۔ اس کھیل میں ہر کھلاڑی اپنی مرضی کا حصہ ڈال رہا ہے جبکہ عوام کی اکثریت اس سب سے قطعی طور پر لا تعلق سی دکھائی دیتی ہے –
اسے تودال روٹی کا چکر ہی چین نہیں لینے دیتا۔
حکومت سے لے کر سیاستدانوں تک سرائیکی پارٹیوں سے لے کر سرائیکی دانشوروں تک سارے لوگ کام کام کی بجائے ”اور کام”میں لگے ہوئے ہیں پھر بھلااس نقار خانے میں طوطی کی کون سنے؟ اور یہاں دوسروں کی سننے کا رواج ہی کب ہے۔
یہاں تو محض اپنی اپنی کہنے اور دل کی بھڑاس دوسروں پر نکالنے کا موثر فارمولا اپنایا جاتا ہے۔
کہتے ہیں ایک آدمی چکرا کر گرا تو آس پاس موجود لوگ اس کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے اور با آواز بلند مختلف آپشنز پر اظہار خیال فرمانے لگے آخر ایک آدمی بولا اسے روح افزا پلاؤتا کہ اس کی کمزوری دور ہو وہ آدمی چلا کر بول اُٹھا
”ارے کوئی اس بھلے مانس کی بھی تو سنے“۔
ہمارے وسیب کی عوام تسکین جان کے لیے کسی ایسے ہی راحت جان مشروب کی منتظر ہے لیکن صوبے کے نام پر ابھی تک اسے لالی پوپ تک نہیں مل پایا۔
صورتحال خاصی دلچسپ ہے۔
بہاولپور صوبے کے حامی صوبے کی حدود میں ممکنہ اضافے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکے ہیں (عجیب لوگ ہیں اپنی جائیداد میں اضافے پر دھاڑیں مار کر رو رہے ہیں) ملتانی ولسانی طبقہ، بہاولپور کو صدر مقام بنائے جانے اور ہاتھوں سے نکلتادیکھ کر انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔ سرائیکستان کے حامی تانگہ پارٹیاں اور لسانی دانشور الگ اپنی صدائے احتجاج بلند فر ما کر حق نمک ادا کر رہے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں وسیب کے لو گ مسلسل نظر انداز کیے جارہے ہیں اور ان کے مفاد کی جنگ لڑنے والا طبقات صوبائی صدر مقام،نام،علاقوں اورصوبائی حدود و قیود پر اپنا اپنا راگ گاتے اور اپنی اپنی ڈفلی بجاتے پھر رہے ہیں۔
جس میں سوائے دل کو موم کر دینے والی آواز اور سچے ”سر“کے باقی ہر چیز با افراط پائی جاتی ہے۔
راقم اب بھی صوبہ بہاولپور کے حق میں ہے۔
لیکن اب جب کہ اس کی حدود میں اضافے کی باتیں ہو رہی ہیں (اور صرف باتیں ہی ہو رہی ہیں اورصرف وہی لوگ کر رہے ہیں جومیری طرح عملی طور پر تین میں ہیں نہ تیرہ میں)۔
مجھے ایک عام وسیبی کی حیثیت سے اس پر ہر گز کوئی اعتراض نہیں۔
وسیب کے وسیع تر مفاد میں میں یہ”قربانی“دینے کو تیار ہوں
۔تاہم اس سلسلہ میں عوام کی رائے کا احترام لازم ہے
(جو یقیناًیہ کہہ دینے سے نہیں ہو گاکہ بہاول پور ی طبقہ ن لیگ کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔کیونکہ اگر ادھر سے یہ کہہ دیا گیا کہ لسانی طبقہ بہاول پور صوبے کی مخالفت کسی بیرونی ایجنڈے کے تحت کر رہا ہے تو ملتانی طبقے کیلئے اسے برداشت کرنا آسان نہ ہوگا)۔
اگر عوام دو صوبوں کے حق میں ہے تو الگ الگ بنائے جانے پر اعتراض کرنا جمہوریت کی نفی ہے۔
اگر عوام مشترکہ صوبے کے حق میں ہیں تو اسکی بنیاد لسانی نہیں انتظامی ہونی چاہئے۔
کیوں کہ مسلکی، گروہی ا ور لسانی سیاست نے ہمیں سوائے ذہنی و قلبی دوریوں کے اور کچھ بھی نہیں دیا۔
اور حالیہ الیکشن نے لسانی سیاست کو یکسر مسترد کر کے اس بات کا واضح عندیہ دے دیا ہے کہ وسیب میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
عوام جو بھی فیصلہ دیں اسے (خود ساختہ خدائی فوجداربنے بغیر) قبول کر لینا ہر اختلاف کی جڑ کاٹ دیگا۔
نام اورصوبائی حدود کے حوالے سے بھی عوامی رائے کو(ریفرنڈیم سے حاصل کردہ) مدنظر رکھنا بہترین حکمت عملی ہو گی۔
نام کے حوالے سے”پنجند“ایک بہترین آپشن ہے کہ یہ وسیبی رازداں ممکنہ صوبائی حدود کے تینوں ڈویژونوں (ملتان،بہاول پوراورڈی جی خان)سے ہو کر گزرتا ہے۔
اگر یہ بھی قبول نہیں تو اس کا فیصلہ نئی صوبائی اسمبلی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ابھی سے اختلافات کی شدت اس قدر ہے تو عوام کو تقسیم کرنے اور انتشار پھیلانے سے بہتر ہے دو الگ الگ یونٹ بنا دیے جائیں۔
اس طرح لسانی سیاست کے نام پر در پیش تمام رکاوٹیں خود ہی معدوم ہو جائیں گی۔
میانوالی اور بھکر کی عوام نے بی جے پی ڈرامے کے دوران ہی اپنا احتجاج ریکارڈ کرا کر اپنا موقف واضح کر دیا تھا کہ انہیں سرائیکستان اور اسکے صدر مقام سے کہیں زیادہ ”تخت لہور“عزیز ہے۔
سو ان کی رائے کا احترام ہم سب پر واجب ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو تو اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں لیکن خود وسروں کے ساتھ ملنا نہیں چاہتے۔
سرائیکستان کے حامیوں کو کب ریاستی عوام نے یہ درخواست پیش کی ہے کہ انہیں اپنے مشترکہ صوبے کا حصہ بنا لیں۔ تو پھر ریاست کی بحالی پر کسی اعتراض کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
جنوبی پنجاب کی دو یونٹ میں تقسیم کے مخالف لسانی دانش ور یہ بتائیں کہ ہم سب اکھٹے تھے ہی کب کہ ہم پر سرائیکستان کی تقسیم کا الزام عائد کیا جا سکے۔
جانے دائروں کا یہ سفر کب تھمے گا؟
جس میں دائرے تو بڑھتے ہیں فاصلے نہیں کٹتے۔
ہاں لوگ ضرور بٹتے ہیں اور عوامی جواب کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔
(یکجہتی کانفرنس کے بعد لسانی دانشوروں کی”جنگ پلاسی“ کاصلیبی جنگوں میں بدلنا حد درجہ قابل افسوس بھی ہے اور قابل مذمت بھی)
جانے کب یہ بات ہمارے”بھیجے“میں سمائے گی کہ پیالی کا طوفان پیالی کا ہر گز کچھ نہیں بگاڑ پاتا۔
ہاں اس کی اپنی ہستی نیستی میں بدل جاتی ہے اور اس خود کشی کا واحد ذمہ دار وہ”طوفان“ خود ہوتا ہے۔
بھلا جہاں 76لاکھ ووٹرز کی حامل سونامی کو بھی سیاسی حاسدین ناکامی اور بدنامی کا نام دیتے نہ تھکیں وہاں کسی پیالی کے طوفان کی اوقات ہی کیا ہے؟
”پنجاب کی تقیسم کی بات کرنے والے پنجاب کے نمائندے نہیں“۔
”المنشورپارٹی“نامی کسی غیر معروف پارٹی کا یہ نعرہ میں نے گجرات میں ایک بینر پر لکھا دیکھا تو مجھے اس کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
لیکن پنجاب کی تقسیم کے حامی لسانی سیاستدانوں اور دانش وروں کے صوبہ بہاول پور کی مخالفت دل پر کسی ضرب کی طرح لگتی ہے اور یہ دل انکے ہر جواز کو جواز بے قیاس قرار دیتا دکھائی دیتا ہے
مجھے متحدہ صوبہ محاذ کے سیاستدانوں سے بھی ایک سوال کرنا ہے کہ جب سے آپ لوگ حکومت میں آئے ہیں آپ کے منہ پہ ٹیپ کیوں لگی ہے – آپ سرائیکی صوبے کے لیے آواز بلند کیوں نہیں کر رہے – آپ نے تو وعدہ لیا تھا کہ سو دن میں نیا صوبہ لیں گے – تو کیا ابھی سو دن پورے نہیں ہوئے یا آپ صوبہ بنوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں