Buy website traffic cheap


تماشہ بھی نہیں ہوتا۔ کھیل بھی نہیں ہوتا،شادی کا بندھن

عمارہ کنول
شادی کا بندھن تماشہ نہیں ہوتا۔ کھیل بھی نہیں ہوتا,جوا بھی نہیں اور قسمت کی بازی بھی نہیں نصیب کا دھوکا بھی نہیں۔ یہ آپ کی نیت اور اعمال کا مظہر ہے۔ آج کل پسند کی شادی کا رواج ہے اور اسی لیے طلاق کا ریشو بڑھ گیا ہے،پہلے دور میں طلاق نہیں ہوتی تھی یہ تاثر قطعاً غلط ہے۔ پہلے بھی طلاقیں ہوا کرتی تھیں مگران کا تذکرہ معیوب سمجھا جاتا تھا۔ بعض کیسز میں تو عورت کے پہلے بچے چھپا کر اس کی دوسری شادی بھی کر دی جاتی تھی۔
طلاق ایک ناپسندیدہ مانا،جانے والا عمل ہے۔شادی ایک خوشنما بندھن ہے جس میں نفرت کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن وسوسے اور شک کی گنجائش سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
بڑھتی زمہ داریوں کی وجہ سے یہ رشتہ تنا¶ کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ ایک لڑکی اپنے گھر سے الگ ایک دوسرے ماحول میں جاتی ہے جہاں انجان اور اس کے مزاج سے یکسر لوگ اسے کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اب اس اگنی پرکھشا سے جو کامیاب ہو جائے وہ سہاگن ورنہ اپھاگن۔
ذمہ داریوں کے علا¶ہ جو مشکل مرحلہ درپیش ہوتا ہے وہ اپنے آپ تک اس بندے کو رسائی دینا ہے جو کل تک آپ کے لیے مکمل اجنبی تھا۔ یہاں دونوں میں سے ایک تو قبول کر جاتا ہے جبکہ دوسرے کے لیے اپنی مکمل رسائی فراہم کرنا ایک ناگوار اور مصلحت پسند عمل لگتا ہے۔ اس صورت حال میں جہاں رشتے کی نزاکت کہتی ہے کہ ایک دوسرے کو مکمل سمجھو اور ایک دوسرے کو ہر رسائی دو۔ وہاں میں کیوں اور صرف میری ذات، یا خود غرضی کا عنصر رشتے کو نقصان پہنچاتا ہے۔ مسلسل قربانی دئیے جانے والے دوسرے فرد کو پہلے کی حاکمیت اور خود پسندانہ فطرت و طبیعت سے گزارا مشکل ہونے لگتا ہے اور نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات۔۔ طلاق۔۔
کبھی آپ نے کسی جاب پر ایسے شخص کو تعینات دیکھا جو اس کے اہل نا تھا۔ بے فکر رہیئے میں وزیراعظم کی بات نہیں کر رہی میں بات کر رہی ہوں ان بے جوڑ شادیوں کی جن میں عمر، رتبے، قابلیت، شخصیت، یا خاندانی مطابقت میں واضح فرق ہوتا ہے۔ ایسا جوڑ چاہے محبت کے گلیو سے جوڑا جائے چاہے خاندانی دبا¶ کی ایلفی سے،ہر دو کا نتیجہ طلاق کی صورت منتج۔۔معزز خاندانوں میں ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے ٹیبل ٹاک۔ جس میں بدنامی، مار پیٹ اور تماشے کی بجائے سکون سے بیٹھ کر فریقین یعنی میاں بیوی یا پھر خاندان کے چند بڑے آرام سے فیصلہ کر لیتے ہیں اسی میں خلع،حق مہر،جہیز وغیرہ کے معاملات بھی طے کر لیے جاتے ہیں اور بات عدالتی نظام اور بدنامی کی بجائے ایک چائے کے کپ پر مختتم ہو جاتی ہے۔
جب رشتوں میں مزید ساتھ چلنے کی سکت نہ رہے تو ایک ناپسندیدہ فعل ہی سہی طلاق کو اپنا لینا ہی مستحسن ہے کوشش یہ ہونی چاہئیے کہ جہاں دل نا ہو جہاں من راضی نا ہو شادی نا کریں۔ رشتے داروں کو اکٹھا کر کہ پائی پائی جوڑ کہ ایک غریب اپنی بیٹی رخصت کرتا ہے جسے یہ کہہ کر مسترد کر دینا کہ میں تو فلاں سے محبت کرتا تھا تم اتنی خوبصورت نہیں ہو، ویسی نہیں ہو،غلط ہے ،، اتنی سہولیات نا سہی آپ کی توجہ اور پیار کے دو چار الفاظ اسے اس سے بھی زیادہ خوبصورت بنا سکتے ہیں۔ وہ شخص آپ کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو اپنا معیار تھوڑا سا کم کر لیں یا دوسرے کو اپنے معیار تک لے آئیں۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا تو دوسرے کو اپنے جیسا انسان سمجھ کر دل سے اپنا لیں۔ یقین مانیے آپ کے شریک حیات جیسا آپ کو دنیا میں کوئی نہیں ملے گا۔
پھر بھی اگر بدنیتی اور بداعتمادی ہے تو راستہ الگ کر لیجئے مگر مار پیٹ اور بدنامی کیے بغیر۔۔۔ کیونکہ وقت تو بدل جاتا ہے مگرانسان کے ڈسے لوگ پھر نا جی پاتے ہیں نا بدل پاتے ہیں۔