Buy website traffic cheap

ڈونلڈ ٹرمپ

ڈونلڈ ٹرمپ اورامریکی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات شدت اختیارکرگئے

لاہور(ویب ڈیسک): امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام سے امریکی افواج کی واپسی کے اعلان کے اگلے ہی دن ان کے وزیرِ دفاع جیمز میٹس مستعفی ہو گئے۔تاحال یہ واضح نہیں کہ اس استعفے کا براہِ راست تعلق صدر ٹرمپ کے اسی فیصلے سے ہے تاہم اپنے استعفے میں جیمز میٹس نے لکھا آپ کو ہم خیال سیکریٹری دفاع رکھنے کا حق حاصل ہے اور میرے لیے بہتر ہے کہ میں عہدے سے الگ ہو جاؤں۔صدر ٹرمپ کو بھیجے جانے والے استعفے میں میٹس نے اتحادیوں کے احترام کے بارے میں اپنے خیالات بیان کیے اور عام دفاع کی فراہی کے لیے امریکی طاقت کے تمام وسائل استعمال کرنے کا ذکر بھی کیا۔امریکی صدر نے جیمز میٹس کے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر دفاع جیمز میٹس آئندہ سال فروری کے آخر میں اعزاز کے ساتھ ریٹائر ہو جائیں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کی کہ جیمز میٹس نے اتحادیوں اور دوسرے ممالک کو فوجی ذمہ داریوں کا حصہ ادا کرنے میں میری بہت مدد کی تھی۔امریکی صدر نے جیمز میٹس کے جانشنین کا نام نہیں لیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ نئے وزیر دفاع کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔امریکی صدر ٹرمپ نے شام میں تعینات دو ہزار کے قریب امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو وہاں شکست دے دی گئی ہے۔جیمز میٹس شام سے فوج کے جلد انخلا کے مخالفین میں سے ایک ہیں اور وہ کہہ چکے ہیں کہ ضرورت سے جلدی انخلا ایک سٹریٹیجک غلطی ہو گی۔دولتِ اسلامیہ نے چار برس قبل شام کے بڑے علاقے میں اپنا اثرونفوذ قائم کر لیا تھا اور امریکی افواج کے شامی کردوں اور عرب جنگجوں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے شمالی علاقے سے تقریبا دولتِ اسلامیہ کا صفایا ہو گیا ہے۔تاہم اب بھی شدت پسند کچھ مقامات پر موجود ہیں۔ ایک حالیہ امریکی رپورٹ کے مطابق شام میں اس وقت دولتِ اسلامیہ کے تقریبا 14 ہزار شدت پسند ہیں جبکہ ہمسایہ ملک عراق میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے اور یہ خدشہ ہے کہ وہ اپنا نیٹ ورک دوبارہ بنانے کے لیے گوریلا جنگ کا سہارا لے سکتے ہیں۔صدر ٹرمپ نے فوج کی واپسی کے اعلان کے بعد ایک اور ٹویٹ میں اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اس فیصلے سے کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ان کے مطابق وہ برسوں سے اس کے لیے مہم چلاتے رہے ہیں اور جب چھ ماہ قبل وہ ایسا کرنا چاہتے تھے تو میں نے وہاں رکنے پر اتفاق بھی کیا۔صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ روس، ایران، شام اور دیگر دولتِ اسلامیہ کے مقامی دشمن ہیں۔ ہم وہاں ان کا کام کر رہے تھے اور اب گھر واپسی کا وقت ہے۔میڈیاکا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ چاپے جیمز میٹس کی روانگی کو ریٹائرمنٹ کہہ کر بات بدلنا چاہیں لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ صاف اور سادہ بات یہی ہے کہ یہ احتجاجا دیا جانے والا استعفی ہے۔اس کے مطابق جیمز میٹس نے صدر کو جو خط تحریر کیا ہے جس میں انھوں نے امریکہ کے اتحادیوں کی بھرپور حمایت کی ہے اس بات کو مزید واضح کر دیتا ہے۔بی بی سی کے مطابق اس اعلان کا وقت جبکہ صدر ٹرمپ نے ایک دن قبل ہی شام سے فوج بلانے کا اعلان کیا ہے اور افغانستان سے بھی فوج کی واپسی کی افواہیں گرم ہیں بھی اہم ہے اور اس سے اگر کسی کو ان دونوں افراد کے درمیان پالیسی پر اختلافات کے حوالے سے کوئی شک تھا تو دور ہو جانا چاہیے۔خیال رہے کہ صدر ٹرمپ کے شام سے امریکی فوج واپس بلانے کے فیصلے پر امریکی سینیٹرز کے علاوہ اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔امریکی صدر کی جماعت ریپبلکن پارٹی کے اہم سینیٹرز نے اس فیصلے پر کھل کر تنقید کی اور اسے ایک بری اور بڑی غلطی اور ایران اور روس کی فتح قرار دیا۔برطانیہ نے بھی صدر ٹرمپ کے ان اندازوں پر سوال اٹھائے ہیں جن کے مطابق ان کے خیال میں دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کو شکست ہو چکی ہے۔رپبلکن سینیٹر لنڈسی گراہم جو کہ آرمڈ سروسز کمیٹی کی رکن بھی ہیں، کہتی ہیں کہ یہ اقدام ‘اوباما جیسی غلطی ہے’۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایران اور روس کی بڑی فتح ہے۔سینیٹ کی فارن سروسز کمیٹی کے سربراہ باب کروکر نے اسے برا فیصلہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریپبلکن سینیٹرز کو صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے افسوس ہوا اور دھچکا پہنچا کہ وہ اپنے کرد اور عرب اتحادیوں کو صدر اسد اور ترکی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔