Buy website traffic cheap


پرائیویٹ سکول یا تعلیم نشانہ کس پر ہے؟

پرائیویٹ سکول یا تعلیم نشانہ کس پر ہے؟
عتےق انور راجہ
اےک وقت تھا ملک مےں کوئی بھی واقعہ ہوتا تو حکومتےں سب سے پہلے ڈبل سواری پر پابندی لگادےا کرتی تھےں۔پھر موبائل فون بند کرنے کا سلسلہ بھی کچھ عرصہ چلتا رہا لےکن اس کے بعد اب پچھلے کافی عرصے سے ملک مےں کسی واقعے کے بعد تعلےمی ادارے حکومت کی محبتوں کے اثر مےںآجاتے ہےں ۔اللہ کا کرم ہے کہ ہماری حکومتوں کی تدابےر اور سےکےورٹی فورسسز کی قربانےاں رنگ لائےں اور اب ملک امن و امان کی حالت مےں ہے ۔لےکن اب اگر کچھ ہوتا ہے تو حکومت سکول بند کرنے سے نہےں چوکتی ہے ۔بے شک طلبا کی عمر چھوٹی ہوتی ہے اور وہ بڑوں کی طرح موسموں کی شدت کا مقابلہ نہےں کر سکتے ہےں۔گرمی زےادہ ہو تو سکول بند،موسم سرد ہوجائے تو سکول بند،دھند ہو تو سکول بند،فضائی آلودگی ہو تو سکول بند۔ےعنی غور تو کےجےے صاحبان عقل و شعور جن وجوہات کی وجہ سے مسائل پےدا ہوتے ہےں ادھر تو توجہ نہےں کی جاتی لےکن سکول بند۔فضائی آلودگی کا سبب سکول تو نہےں ہوتے نا؟ چلےں موسم کے آگے زور نہےں چلتا ےہ کچھ دےر کے لےے مان لےتے ہےں ۔لےکن ہم ےہ کےوں نہےں سوچتے کہ جن ملکوں مےں سارا سال موسم سرد تر رہتا ہے ان کی شرح خواندگی ہم سے کہےں بہتر کےسے ہے ۔اس کی آسان سے وجہ ےہ بےان کرنا چاہوں گا کہ ان ملکوں مےں حکومتوں نے لوگوں کے لےے بہترےن ٹرےفک سہولتےں مہےا کی ہوئی ہےں ۔اچھا جی مےرے ملک مےںجن وجوہات کی وجہ سے فضا آلودہ ہوتی ہے وہ گاڑےاں ،وہ فےکٹرےاں اور کارخانے بند کرنے سے صورتحال بہتر بنانے کی بجائے سکول ہی کےوں بند؟آج جب ساری دنےا کو کورنا نے اپنی لپےٹ مےں لےا ہوا ہے تو مےرے ملک کے صاحبان دانش کی نظر اےک بار پھرپرائےوےٹ اسکولوں پر پڑی۔ابھی تو وقت تھا کہ حکومت گھروں مےں لاک ڈاون کا شکار شہرےو ںکے لےے روز مرہ کی اشےا سستی کرتی ۔بہترین طبعی سہولتوں کا حصول ممکن بناتی ۔ہسپتالوں مےں کام کرنے والے ڈاکٹروں،نرسوں اور وہاں فرائض جاری رکھنے والے دوسرے عملے کی صحت کا خےال رکھتی اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لےے کسی سپےشل الاونس کا اعلان بھی کرتی۔لوگوں کے روز مرہ استعمال کی چےزےں مثلاً آٹا ،چےنی،گھی،دالےں اور صابن ،صرف پہ اپنی طرف سے لگاےا گےا ٹےکس کچھ وقت کے لےے معاف کرتی اور پھر کارخانہ والوں کی منت کرتی کہ وہ بھی اس مشکل وقت مےں اپنا نفع چھوڑ دےں تا کہ ےہ چےزےں آدھی قےمت تک ملنے لگتیں۔لےکن اےسا نہےں کےا گےا ۔بلکہ اب کی بار صرف سکول کچھ وقت کے لےے بند کرنے سے آگے کی سوچی گئی ہے ۔اب حکومت کے لائق صلاح کاروں کا پلان ہے کہ متوسط طبقے کو سستی تعلےم فراہم کرنے والے پرائےوٹ سکول سرے سے بند ہی ہو جائےں تا کہ ان کے منظور نظر بڑے برےنڈ اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکےں ۔تا کہ سب بچے کہےں پڑھ لکھ نہ جائےں ۔احساس کے نام سے لوگوں کو راشن پہچانے کی کوشش کرنے والی اس حکومت کو شاےدےہ احساس نہےں ہے کہ اس وقت بھی اعداد و شمار کے مطابق دو کروڑ سے زائد پاکستانی بچے سکول جانے سے محروم ہےں ۔اور جو تعلےم حاصل کر رہے ہےں اس کی بڑی ےہ ’مافےاکہلوانے ‘ والے پرائےوےٹ سکول ہےں ۔مجھے اکثر حےرت ہوتی ہے کہ ہماری حکومتوں مےں بےٹھے لوگ خوامخوہ مسائل کےوں پےدا کر لےتے ہےں ۔کبھی کبھی لگتا ہے کہ حکومتی اےوانوں مےں بےٹھے کچھ لوگ کسی کاروائی سے حکومت کو مشکل مےں پھنسانا چاہتے ہےں تو کبھی اےسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ کچھ اےسا بےان دےنے کی کوشش کرتے ہےں جس کی وجہ سے ان کی مےڈےا پر رونمائی کا سلسلہ چل پڑے ۔اب بھی کچھ اےسا ہی ہوا ہے ۔ابھی تو لاک ڈاون کے دن تھے ابھی کون سا سکول بچو ںسے فےسوں کے مسئلے پہ سختی کر رہے تھے ۔ابھی تو والدےن بڑے آرام سے سکول والوں سے کہہ سکتے تھے کہ لاک ڈاون کے بعد دےکھتے ہےں ۔کےا صورتحال بنتی ہے ۔ابھی تو لاک ڈاون کو مہےنہ بھی نہےں ہوا تھا تو پھر ےہ چنگاری بھڑکانے کی کےا ضرورت آن پڑی ؟کےا حکومت لوگوں کو ےہ احساس دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہم خود تو اپنے بجلی ،گےس کے بلوں مےں لگائے گئے ہزار قسم کے ٹےکس معاف نہےں کرسکتے ہےں ۔ہم خود تو بند کارخانوں،فےکٹرےوں اور تعلےمی اداروں کے واجبات چھوڑ نہےں سکتے ہےں ۔ہم بس ےہ کرتے ہےں کہ لوگوں کو کسی”آرے“ لگاتے ہےں اور انہوں نے پرائےوےٹ سکولوں کی فےسو ںکو لے کے اےک مسئلہ بنانے کی کامےاب کوشش کی ہے ۔مجھے ےہاں آج صرف ےہ عرض کرنی ہے کہ مجھے اےسا لگ رہا ہے کہ اس فےصلے کے بعد نہ صرف تعلےمی اداروں کے لےے مسائل پےدا ہوں گے بلکہ لاکھوں کی تعداد مےں طلبا کی تعلےمی سرگرمےوں پر بھی اثر پڑے گا ۔کےونکہ اس ہلہ شےری کے بعد بہت سے تعلےمی ادارے سرے سے بند ہونے کا قوی امکان ہے ۔مافےا کا لقب پانے والے بہت سے پرائےوےٹ سکول پانچ سو سے تےن ہزار پھر پانچ ہزار تک فےسےں لے رہے ہےں ۔کےا احساس کرنے والی مےری سرکار نے ان بچو ںکے مستقبل کا احساس کر لےا ہے ۔جو ان سکولوں مےں پڑھتے ہےں۔کےا انہےں احساس ہے کہ اگر والدےن نے فےسےں نہ جمع کروائےں تو بہت سے تعلےمی ادارے سرے سے بند ہوجائےں گے ۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 الف کے تحت ریاست پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو مفت تعلیم دینے کی پابند ہے۔تو پھر ان بچو ںکے لےے کےا حکومت ہر گلی ،ہر محلے اور ہر شہر مےں ہزاروں کی تعداد مےں سرکاری سکول کھولنے کا پلان تےار کر چکی ہے ۔افسوس تو اسی بات ہے کہ ہر حکومت نے اپنے بچوں کے لےے تو مہنگے ترےن پرائےوےٹ تعلےمی اداروںکا انتظام کر لےا ۔لےکن متوسط اور غرےب لوگوں کے لےے ان کے پاس کوئی پلان نہےں ہے ۔جس حساب سے آبادی بڑھ رہی ہےں ےا تو حکومتےں اسی حساب سے سکول بناتی چلی جاتےں،ان سرکاری سکولوں مےں تعلےم کے معےار کے ساتھ طلبا کی فکری سوچ کو پروان چڑھانے پہ کام کرتےں تو پھر شاےد پرائےوےٹ سکولوں مےں بچو ںکے داخلے کا رجحان اتنا نہ ہوتا جتنا آج ہے ۔لےکن اب مجھے ےہ احساس ہونے لگا ہے کہ حکومتی مشےروں کے نشانے پر صرف تعلےمی ادارے نہےں ہے بلکہ پورا نظام تعلےم پر ہے ۔جس ملک مےں پہلے ہی کروڑوں کی تعداد مےں بچے سکول نہےں جارہے اس ملک مےں جو سکول بہت مناسب فےس سے تعلےم کا سلسلہ چلا رہے ہےں ان کے لےے مشکلات پےدا کرنا کسی طور بھی سراہے جانے کے لائق نہےں ہے ۔اور اےک بات ےہ بھی عرض کرتا چلو ںکہ پرائےوےٹ سکولوں مےں جب والدےن بچے داخل کرواتے ہےں تو انہےں معلوم ہوتا ہے کہ انہےں اپنے لاڈلوں کی سارا سال فےس بھرنا ہوگی ۔اور وہ اےسا کرتے بھی ہےں ۔چھٹےوں مےں فےس دےر سے جمع کروانے کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے ۔کچھ دانشورں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ سکول بچوں کو پڑھانے کے عوض ہی فےس لیتے ہےں تو چھٹےوں مےں فےس کےوں دی جائے؟۔ان کی اطلاع کے لےے عرض ہے سکول مالکان اپنے سالانہ اخراجات کو سامنے رکھتے ہوئے فےسےں طے کرتے ہےں ۔انہےں پتہ ہوتا ہے کہ ہر سال تےن مہےنے گرمےوں کی چھٹےاں ہونی ہےں ۔اس عرصے مےں انہےں اےک طرف سکول کی عمارت کا کراےہ دےنا ہوگا۔وہےں اپنے سکول سے جڑے اساتذہ،کلرک،چوکےدار،مالی،صفائی والے اوربجلی ،گےس،فون،انٹرنےٹ کے بل بھی ادا کرنا پڑےں گے۔ گویا نجی ادارے جو بھی فیس طے کرتے ہےں اس مےں اپنے سارے سال کے اخراجات کو پےش سامنے رکھتے ہےں۔ ان حقائق کو سامنے رکھا جائے تو ان اداروں کا سارا سال فیس و صول کرنا جائز دکھائی دیتا ہے البتہ جن والدےن کو مشکلات ہوں ان کے ساتھ نرم روےا رکھنے کے بھی ےہ ادارے عادی ہوتے ہےں۔
صرف اےک نقطہ ہے جس ہے مجھے اعتراض ہے کہ کچھ سکول پوری فےس لےنے کے بعد بھی اپنے سٹاف کو آدھی تنخواہےں دےتے ہےں۔اب ےہ پرائےوےٹ تعلےمی اداروں پر منحصر ہے کہ وہ دےکھےں جو سکول اساتذہ اور دوسرے عملے کی تنخواہیںمکمل ادا نہیں کررہے ہیںان کے خلاف کارروائی کی جائے اور ان سکولوں کو پابند کیا جا ئے کہ وہ اساتذہ اور دےگرعملے پوری تنخواہےں ادا کرےں۔