Buy website traffic cheap


”ہم ایک دوسرے کی عزت کریں گے”

تحریر: سلمان احمد قریشی

پی ڈی ایم نے گوجرانوالا کے بعد کراچی میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ملک میں احتجاجی سیاست کا ماحول بن گیا۔ یہ جلسے جلوس جو الیکشن مہم کا حصہ ہوتے ہیں اگر الیکشن سے بہت پہلے شروع ہوجائیں تو سیاست میں بے یقینی کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، اپنی حد کے اندر رہنا ہی فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ایک طرف مہنگائی، دوسری طرف غیر یقینی صورتحال ہے۔ایسا گمان ہوتا ہے سیاسی قائدین کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اورملک وقوم کی کسی کو فکر نہیں۔ملکی ادارے تنقید کی زد میں ہیں۔ برسراقتدار پارٹی اپنے علاوہ کسی کو محب وطن نہیں سمجھتی۔ حکومت کے مطابق دیگرسب جماعتوں کے قائدین کرپٹ ہیں۔ پی ٹی آئی کے نزدیک کرپشن ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اپوزیشن حکومت کو ختم اور فیصلہ کن جنگ جیتنے کے لیے سڑکوں پر آگئی ہے۔ حکمران محض الزامات کے سہارے معاملات چلانا چاہتی ہے۔ عام آدمی دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے۔
حکومت مخالف گیارہ جماعتی اتحاد کے بعد اب جماعت اسلامی بھی احتجاج کا مکمل شیڈول اور لائحہ عمل کا اعلان کرنے جارہی ہے۔امیر جماعت اسلامی سینیڑ سراج الحق مہنگائی کے خلاف تحریک کو حقیقی معنوں میں ایک عوامی تحریک بنانے کی بات کرتے ہیں۔سراج الحق کے مطابق تمام اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے اکھٹی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ووٹوں سے منتخب سینیٹر سراج الحق اب پی ٹی آئی کے خلاف تحریک چلانے کے لیے تیار ہیں۔ حکومت کے پاس بھی بڑھتی مہنگائی،سیاسی تناواور محاذآرائی پر کوئی واضح پروگرام یا لائحہ عمل نہیں۔ ایسی صورتحال میں عوام سڑکوں پر آئیں گے تو سیاسی معاملات مزید خراب ہونگے۔
قارئین کرام! حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔سنجیدہ طرز عمل اختیار کرنے کی بجائے حکومت غصہ وانتقام کے جذبہ سے اپوزیشن کو زیر کرنا چاہتی ہے۔ سیاسی ڈائیلاگ اور نظریات کی جگہ ہر سطح پر تصادم ہے۔ نااہلی،مہنگائی اور غربت کے پھیلاو سے حکومت کی ناکامی کا تاثر غالب آرہا ہے عام آدمی پریشان ہے۔ تبدیلی کے خواب کی بہت بھیانک تعبیر سامنے آئی۔
حکومت کچھ بھی کہے کوئی غیر جانبدار ذی شعور پاکستانی ان جلسوں کو ناکام قرار نہیں دے سکتا۔حکومتی ترجمان سخت زبان کے استعمال کے ساتھ سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں۔عوامی جذبات ایوان اقتدار تک نہیں پہنچ رہے۔بدقسمتی حکومت کارکردگی کی بجائے الزام تراشی کی سیاست تک ہی محدود ہے۔عمران خان کے سیاسی انداز کو اگر برداشت کر بھی لیا جائے تو مہنگائی، بجلی، گیس، جان بچانے والی ادویات، گھی، چینی، آٹا، اور زرعی اجناس کی بڑھتی قیمتوں کو برداشت کرنا ممکن نہیں- اپوزیشن اگر اپنے مفادات کے لیے اکھٹی ہے تو سوال تو یہ ہے کہ حکومت عوامی مفاد کے لیے کیا کررہی ہے۔۔۔؟
نئے پاکستان کے بعد اب” نیا عمران خان” کی نوید سنادی گئی ہے۔ بدلا ہوا عمران خان نوازشریف کو اب عام قیدی کی طرح رکھے گا۔ مگر سوال کا جواب کون دے گا کہ نوازشریف ملک سے باہر کیوں گئے۔۔۔؟ پہلے پابند سلاسل نوازشریف وی آئی قیدی کیوں تھے۔۔۔؟اب کونسا نیا قانون آگیا یا عمران خان کو کونسی نئی طاقت مل گئی۔۔۔؟ حکومت کا مسئلہ نوازشریف ہے اور نوازشریف کا مسئلہ حکومت ہے۔ ایسے میں عام آدمی کے مسائل کے حل کا لائحہ عمل کون تشکیل دے گا۔۔۔؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کو تمام صورتحال کا ادراک ہے۔ پی پی پی کی قیادت پر الزامات اپنی جگہ مگر جمہوریت کے لیے اس پارٹی کا کردار سب سے بہتر ہے۔ کراچی جلسہ سے قبل ہی کراچی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہم مکمل جمہوریت چاہتے ہیں، وزیراعظم کا جلسہ ہو یا اپوزیشن کا، جلسوں میں جنرلز کا نام لینے پر افسوس اور دکھ ہوتا ہے۔ملک میں جو بھی مسائل ہیں اسکا حل جمہوریت ہے۔ سیاستدانوں اور پارلیمان کو کام کرنا پڑے گا۔
حکومت کا لہجہ اپوزیشن سے زیادہ تلخ ہے۔نوازشریف کی باتوں سے بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا اگر وہ فوج کے سپہ سالار پر نام لے کر تنقید کرتے ہیں تو چھپ چھپ کر ملاقات کرنے والے محمد زبیر کو تو پہلے روکتے۔ مقاصد میں ناکامی پر نظریاتی بیانیہ کچھ زیادہ جچتا نہیں۔
پی پی پی کی قیادت نے موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے روزاول سے تعاون اور مفاہمت کی بات کی۔مولانا فضل الرحمن تو حلف ہی نہ اٹھانے کی بات کرتے تھے۔ پی پی پی کی لیڈر شپ بالکل کلیئر تھی کہ عمران خان کو وقت دیا جائے۔ تبدیلی سرکار خود ناکام ہوگی۔شاید اب حکومت نے تسلیم کرلیا ہے کہ وہ واقعی ناکام ہوچکی ہے۔ حکومت آگے بڑھنا ہی نہیں چاہتی۔ عدالتی معاملات پر بھی وزیراعظم اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔گھمبیر عوامی مسائل کا حل صرف بیانات اور ٹائیگر فورس۔۔۔
شاہ محمود قریشی اور دیگر سینئر سیاستدان ایسے بات نہیں کرتے جیسے شہباز گل، فیاض الحسن چوہان اور کراچی سے منتخب غیر سیاسی ایم این ایز خود کو تیس مارخاں سمجھتے ہیں۔ سیاست کو سمجھنے والے جانتے ہیں مزاحمتی سیاست کیا ہوتی ہے اور سیاسی تحریکوں کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔پی ڈی ایم سیاسی اتحاد ہے انتخابی نہیں۔ اسلیے حکومت کے لیے اہم یہ ہے کہ اسکی کمزوریوں کوعیاں کرنے کی بجائے صرف اپنی کارکردگی پر توجہ دے۔
نوازشریف کو سزا دینی ہے تو ساتھ عوام کے مسائل بھی حل کریں۔ بالائی سطروں میں جس حد کا ذکر کیا تھا اسکے اندر رہ کرہی معاملات چلائے جاسکتے ہیں۔ فیصل واڈا جو چند ہزار افراد کو پھانسی دینے کی خواہش رکھتے ہیں ایسی بے تکی خواہشات پوری نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح نوازشریف کبھی امام خمینی نہیں بن سکتے، ایسا کہنے اور سوچنے والے جمہوریت اور اسکے تقاضوں سے نابلد ہیں۔ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو اپنے خطابات میں جمہوریت، آئین اور عوامی مسائل پر بات کرتے ہیں۔ جبکہ مریم نواز کا مطمع نظر نوازشریف ہے اور عمران خان کا ساری اپوزیشن ہی ٹارگٹ ہے۔
کراچی جلسہ میں مریم نواز نے بلاول سے کہا کہ بلاول آو مل کر یہ وعدہ کریں کہ مخالفت میں اتنے آگے نہیں جائیں گے جتنے عمران خان اور انکے ترجمان گئے ہیں۔۔۔۔ہم ایک دوسرے کی عزت کریں گے۔ یہ عہد دو جماعتوں کے سربراہان کے درمیان ہی نہیں تمام جمہوریت پسندوں کے درمیان ہونا چاہئیے۔ پی پی پی کی قیادت کے ساتھ ماضی میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ سب سے اہم سبق تو یہ ہے کہ آج تک پی پی پی کی لیڈر شپ نے اداروں پر تنقید نہیں کی لہذا مسلم لیگ کوبھی اسطرح کی باتوں سے اجتناب کرنا چاہئیے۔