Buy website traffic cheap

Column, Boot, Faisal Vawda, Boot, Talk Show, Army

اونٹ اور اونٹوں کا عالمی دن

ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب

پاکستان کے کلچر کی جب بھی بات ہوتی ہے اس میں اونٹ کا ذکر لازمی آتا ہے۔ خصوصاََ سندھی اور بلوچی ثقافت کا اونٹ کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ روہی سرائیکی کلچر میں بھی اونٹ کی بنیادی اہمیت ہے۔ اسی ثقافتی تعلق کی بنیاد پر اونٹ کا لٹریچر میں بھی ذکر ملتا ہے۔
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی،اونٹ سستا اور پٹا مہنگا، اونٹ سے بڑے اور نام چھوٹے خان، اونٹ کے گلے میں بلی، ا ونٹ نگل جائیں اور دم سے ہچکیاں لیں، اونٹ مرا کپڑے کے سر، اور اونٹ کے منہ میں زیرہ جیسے بیسیوں محاورے اردو لٹریچر میں پائے جاتے ہیں۔ اکثر لوک داستانوں میں بھی اونٹ ایک اہم کریکٹر کے طور پر موجود ہوتا ہے۔
زبان اور ثقافت سے اونٹ کے تعلق کی وجہ کوئی خیال یا روایت نہیں بلکہ پاکستان کے جس علاقے کے کلچر میں بھی اونٹ پایا جاتا ہے حقیقت میں بھی یہ جانور اس علاقے کے رہن سہن کا بنیادی حصہ ہوتاہے۔ سندھ کا تھر ہو یا روہی کا چولستان یا پھر بلوچ قبائل،اونٹ کا ان علاقوں کی زندگی میںاہم کردار ہے۔ پانی اور خوراک کی ترسیل میں اونٹ کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ یہی اونٹ ان علاقوں میں مال برداری کے بھی کام آتا ہے۔ عیدالاضحیٰ پر یہ قربانی کے جانور کے طور پر فروخت ہو کر روزگار کا ذریعہ بنتا ہے۔ صرف مال برداری ہی نہیں بلکہ اونٹ خوراک کا بھی ذریعہ ہے۔ اونٹ کا دودھ ان علاقوں کے رہنے والوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔
چولستان کی اگر بات کریں تو یہاںبھی اونٹوں کے ریوڑ ملتے ہیں۔ یہ اونٹ خوراک کی غرض سے چولستان میں کھلے عام پھرتے ہیں۔ ہر قبیلے کے جانور پر ایک مخصوص ٹیٹو ہوتا ہے۔ سال میں چار دفعہ اکٹھے ہو کر اپنے اپنے بکھرے ہوئے جانوروں کی شناخت کی جاتی ہے۔ اس سرگرمی کو ”شوکر“ کہتے ہےں۔
اونٹ سخت جانور ہے۔ سخت حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صحر ا کی تپتی گرمی کو برداشت کرتاہے۔ خوراک اور پانی کے بغیر کئی کئی دن گزار سکتا ہے۔ چونکہ 22 جون گرمی کا سخت ترین اور لمبا دن ہوتاہے اسی لئے اونٹ کے لئے اس تاریخ کا انتخاب کیا گیا۔ اس کا آئیڈیا پاکستانی اونٹوں کے ماہر ڈاکٹر عبدالرازق کاکڑ نے دیا۔ آج دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی اونٹ پائے جاتے ہیں وہاں اس دن کو منایا جاتا ہے۔
پاکستان میں اکنامک سروے کے مطابق اونٹوں کی تعداد دس لاکھ ہے۔ یہ تعداد گزشتہ چند سالوں سے اتنی ہی چلی آ رہی ہے۔ یقیناََ یہ تعداد درست نہیں ہو سکتی کیونکہ حقیقت میں 2006 کے بعد سے مال شماری ہی نہیں کی گئی۔ دوسری جانب حکومت پنجاب نے گزشتہ دور میں صوبائی سطح پر مال شماری کی جس کے مطابق پنجاب میں اونٹوں کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے جبکہ اکنامک سروے کے مطابق یہ تعداد دو لاکھ تیس ہزار کے قریب بنتی ہے۔ اگر درست تعداد کا علم نہیں ہو گا تو کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی کارگر ثابت نہیں ہو گی۔
اونٹوں سے ملکی معاشی سطح پر فائدہ اٹھانے کا طریقہ یہی ہے کہ جس کلچر میں جن لوگوں کے ساتھ یہ جانور رہتا ہے، ان تک پہنچا جائے؛ ان کے مسائل کو سمجھا جائے اور ان کے معاشی و ثقافتی نظام میں خلل ڈالے بغیر ان کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس حوالے سے ہمارے پاس مثالیں موجود ہیں۔
گزشتہ دور حکومت میں پنجاب میں موبائل ویٹرنری ڈسپنسری کا کنسپٹ دیا گیا ۔ یہ ڈسپنسریاں چولستان میں بھی گردش کرتیں اور اونٹوں کو علاج معالجے کی سہولیات مہیا کرتیں۔ حکومت سندھ نے بھی اس طرح کی سرگرمی کا آغاز کیا۔ اونٹوں والوں تک علاج معالجے کی سہولیات پہنچانا اور ان کی بہتری کےلئے اقدامات اٹھانا ، ان کی تعداد اور پیداوار میں اضافے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اونٹوں کی بنیادی پروڈکٹ دودھ کیلئے حکومت پنجاب کی جانب سے مارکیٹ فراہم کرنے کا ایک کامیاب منصوبہ بھی سامنے آیا۔ چولستان سے روزانہ کی بنیاد پر دودھ اکٹھا کیا جاتا۔ اسے یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز پتوکی کیمپس میں پراسیس کر کے پیک کیا جاتا اور پھر لاہور میں فروخت کر دیا جاتا۔ لاہور اور فیصل آباد کے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز پر اونٹ کا دودھ فروخت ہوتا رہا۔ محکمہ کے آفیسرز لوگوں کو اس دودھ کی اہمیت بارے موقع پر گائیڈ کرتے ۔ اس منصوبے کو دوبارہ چلا کر انٹرنیشنل مارکیٹ تک پہنچا جا سکتا ہے۔
حال ہی میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی ٹیم نے پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال قریشی کی سربراہی میں اونٹوں میں مصنو عی نسل کشی کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے یقیناََ اونٹوں میں بہتر پیداوار کے حامل جانوروں کی جانب پیش رفت ہو سکتی ہے۔
اونٹ اور اونٹوں کی پروڈکٹس پر توجہ دے کر اس جانور کو زر مبادلہ کا اہم ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ اونٹ کا گوشت غذائیت سے بھرپور بہت سی بیماریوں کے علاج میں مدد کرتا ہے۔ غذائیت سے بھرپور اونٹنی کادودھ بھی مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتاہے۔ اس دودھ کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قدرتی طور پر انسولین نما چیز پائی جاتی ہے جس کی بدولت شوگر کے مریضوں کی یہ دودھ پینے کے بعد انسولین کی ضرورت کم ہوجاتی ہے۔ بیوٹی پروڈکٹس میں بھی اونٹنی کا دودھ استعمال ہوتا ہے۔
اونٹوں کا عالمی دن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پالیسی لیول پر اس جانور سے فائدہ اٹھانے کے لئے سنجیدہ فیصلے کئے جائیں اور اس جانور کی بہتری اور اس کے پالنے والوں کی بہتری کےلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ پاکستان میں پائی جانے والی اونٹوں کی نسلیں دنیا کی بہترین نسلیں ہیں۔ ان پر کام کر کے ہم عالمی سطح پر الگ پہچان بنا سکتے ہیں۔