Buy website traffic cheap

جینیاتی تبدیلی

جینیاتی تبدیلی کیلئے دنیا کی مہنگی ترین دوا ایجاد

لاہور(ہیلتھ ڈیسک): جین تھراپی کے شعبے میں بہت بڑی پیش رفت ۔ دوا فروش کمپنی نوارٹس کو دنیا کی سب سے پہلی جین کی تبدیلی متعارف کرنے کی منظوری مل چکی ہے۔جین تھراپی میں وائرسز کی مدد سے مریضوں کے سیلز میں صحت مند جینز متعارف کیے جاتے ہیں، اور اس کی بڑھتی ہوئی کامیابی امریکی ہیلتھ کیئر میں انقلاب لاسکتی ہے۔

نوارٹس سپائنل مسکولر ایٹروفی کے علاج کے لیے دنیا کی مہنگی ترین دوا زولگینسما فروخت کرنے والے ہیں۔اب جلد ہی پیدائش کے چند ہفتوں کے اندر ہی جینیاتی تبدیلی ممکن ہوگی۔ زولگینسما نامی یہ تھراپی سپائنل مسکولر ایٹروفی کے شکار شیرخوار بچوں کے علاج کے لیے تیار کی گئی ہے۔ عام طور پر اس مرض کے شکار بچوں کی دو سال کی عمر سے پہلے ہی موت واقع ہوجاتی ہے۔ تاہم یہ تھراپی انتہائی مہنگی بھی ثابت ہوگی۔ منظوری حاصل کرنے سے پہلے توقع کی جارہی تھی کہ اس کی کل لاگت 15 سے 20 لاکھ ڈالر کے درمیان ہوگی، جس کا مطلب ہے کہ یہ تاریخ کی مہنگی ترین دوا ہوگی۔جین تھراپی میں وائرسز کی مدد سے مریضوں کے ”سیلز“میں صحت مند جینز متعارف کیے جاتے ہیں، اور اس کی بڑھتی ہوئی کامیابی امریکی ہیلتھ کیئر میں انقلاب لاسکتی ہے۔نوارٹس کو جب اس دوا کی منظور حاصل ہوئی تو انہوں نے اس کی قیمت 21.25 لاکھ ڈالر مقرر کی۔

یہ علاج اوہائیو میں رہائش پذیر ایک ٹیم نے تیار کیا تھا اور اسے نیشن وائڈ چلڈرنز ہاسپٹل کے سائنسدان اور کلینیشنز نے نہایت کامیابی کے ساتھ بچوں پر اس کی ٹیسٹنگ بھی کی۔ ان بچوں کو کھربوں وائرسز رکھنے والے ٹیکے دیے گئے، جن میں SMN1 نامی جین کی درست نقل شامل تھی، جس کی تبدیل شدہ شکل ریڑھ کی ہڈی میں موٹر نیورونز کے نقصان کا باعث بنتی ہے۔امریکہ میں ہر سال پیدائشی ایس ایم اے کے شکار بچوں کی تعداد صرف 400 ہے۔اس کے برعکس نووارٹس کا کہنا ہے کہ ایس ایم اے کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ ایویکسس کے صدر ڈیوڈ لینن کے مطابق اب تک 150 مریضوں کو کلینیکل ٹرائلز یا خصوصی رسائی کے پروگرامز کے تحت جین تھراپی فراہم کی جاچکی ہے۔ بعض دفعہ چھ ہفتوں کی عمر کے بچوں کا بھی علاج کیا گیا ہے، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بچے کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد ہی اس کی جینز کی اصلاح کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ امریکی ریاستوں مینیسوٹا اور پینسلوینیا میں زچگی کے وارڈز میں ہی ایس ایم اے کی ٹیسٹنگ کی جاتی ہے۔ جیسے جیسے نئی ریاستیں اس قسم کے قواعد متعارف کرتی جائیں گے، اس دوا کے ممکنہ مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔
والدین کی امیدیں اور بیمہ کمپنیوں کے تخمینے اس جین کی تبدیلی کے طویل عرصے کے لیے فائدہ مند ثابت ہونے پر منحصر ہیں۔ اب تک وہ مایوس نہیں ہوئے ہیں۔ جن بچوں کا علاج کیا گیا تھا، وہ اب پانچ سال کے ہوچکے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں“ہمارا خیال ہے کہ یہ پیش رفت امید افزاء ہے۔”تاہم اب تک یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کیا یہ علاج دوبارہ کروانے کی ضرورت پڑے گی۔ اس کے علاوہ کیا یہ علاج ان ممالک کو بھی دستیاب ہوگا جہاں والدین ایس ایم اے کے علاج کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے؟