سرائیکی وسیب کی پہچان پٹھانے خان 1926 کوپنجاب کے ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کی بستی تمبو والا میں پیدا ہوئےجوصحرائے چولستان میں واقع ہے۔ ان کا اصل نام غلام محمد تھا۔جب غلام محمد صرف چند سال کے تھے، ان کے والد نے تیسری شادی کی اور اپنی تیسری بیوی کو گھر لے آئے، اس کے بعد غلام محمد کی والدہ نے غلام محمد کے والد کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے جوان بیٹے کو ساتھ لے کر اپنے والد کے ساتھ رہنے کے لیے کوٹ ادو چلی گئیں۔
ایک مرتبہ جب غلام محمد شدید بیمار ہوئے تو ان کی والدہ ان کو ‘سید’ کے گھر (ایک روحانی پیشوا کا گھر) لے گئیں۔ سید کی بیوی نے ان کی دیکھ بھال کی اور ان کی والدہ کو غلام محمد کا نام تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔ سید کی اہلیہ کی بیٹی نے تبصرہ کیا کہ وہ پٹھان خان کی طرح نظر آتے ہیں (اس خطے میں، یہ نام محبت اور بہادری کی علامت ہے) اور اسی دن سے ہی وہ ‘پٹھانے خان’ کے نام سے جانے جانے لگے۔ غلام محمد کی والدہ نے اپنے بچے کی زندگی بچانے کے لیے نیا نام دیا۔ بچپن انتہائی کسمپرسی اورغربت کی حالت میں گزرا ،تاہم والدہ نے پٹھانے خان کا خوب خیال رکھا اور ان کو تعلیم دلانے کی کوشش کی۔لیکن درویش صفت پٹھانے خان اپنا وقت گھومتے پھرتے، غور و فکر کرتے اور اپنا وقت کلام گاتے ہوئے صرف کیا کرتے تھے۔
ابتدا میں وہ نعت اور حمد پڑھا کرتے تھے۔ 16 سال کی عمر میں انہوں نے ملتان کے مشہور گلوکار استاد امیر خان سے موسیقی سیکھنی شروع کی۔ استاد امیر خان نے انہیں لے اور تال سے واقف کروایا۔ پٹھانے خان 10 سال تک مسلسل 12 گھنٹے روزانہ ریاض کرتے رہے اور پھر انہوں نے گائوں گائوں جاکرکافیاں گانے کا سلسلہ شروع کیا۔ بابا فرید کے کلام سے عشق تھا ، نجی محفلوں میں خواجہ فرید کا کلام گاتے گاتے ریڈیو پاکستان ملتان تک جا پہنچے اور 1970 میں ’’میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں‘‘ ریکارڈ کروا کر ، اس کافی اور اپنے فن کو امر کر دیا ، جنوبی پنجاب کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے پی ٹی وی پر انہیں پرفارمنس کا موقع مل گیا،انہیں متعارف کرانے کا سہرا پروڈیوسر مشتاق صوفی کے سر ہے ،
پٹھانے خاں کا ظاہر باطن سب فقیر تھا،ساری عمر کسمپرسی اور غربت میں گزار دی لیکن کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا۔
انہیں غزل، کافی، لوک گیتوں پر بے حد کمال حاصل تھا،پٹھانے خان کو عارفانہ کلام کی گلوکاری میں ملکہ حاصل تھا۔
پٹھانے خان نے اپنی سریلی آواز سے کئی دہائیوں تک خواجہ غلام فرید اور شاہ حسین کی کافیاں، بابا بلھے شاہ اور مہر علی شاہ سمیت صوفی شعرا کا کلام گا کر امن و محبت کا پیغام عام کیا۔ ان کا عارفانہ کلام سنتے ہی سامعین پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔
ان کے مشہور صوفیانہ کلام میں میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں، چینہ ایں چھڑیندا یار ، کیا حال سناواں دل دا ،کوئی محرم راز نہ ملدا ، الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہُو ان کی دنیا بھر میں شہرت کا باعث بنا۔
پٹھانے خان نے سرائیکی کے ساتھ ساتھ اردو کلام بھی کمال گایا۔ ان کی گائی ہوئی غزل ’’اے دوست ذرا اور قریب رگ جاں ہو‘‘زبان زد عام ہے۔
پٹھانے خان کی خدمات کے صلہ میں انہیں 1979 میں صدارتی ایوارڈبرائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔پٹھانے خان نے 79 مختلف ایوارڈز حاصل کیے۔
پٹھانے خان 74 برس کی عمر میں مختصر علالت کے بعد 9 مارچ 2000 میں اپنے آبائی شہر کوٹ ادو ہی میں اپنے چاہنے والوں کو اداس کر کے راہی عدم ہوگئے۔ان کے جنازے میں شاعروں، دانشوروں، وکلا، تعلیمی ماہرین اور ضلعی عہدے داروں سمیت لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی. پٹھانے خان کو کوٹ ادو میں واقع قبرستان میں دفن کیا گیا۔
ان کے فن کے سحر میں مبتلا مداحوں نے کوٹ ادو کے قدیم بازار کو ان کے نام سے منسوب کر دیا اور اب وہ پٹھانے خان بازار کہلاتا ہے۔
