اس میں شک نہیں کہ ماہِ رمضان میں خواتین کی ذمہ داریوں کی فہرست کچھ لمبی ہو جاتی ہے۔رمضان شروع ہونے سے قبل گھروں کی صفائی کرنا، گھر والوں کے لئے سحری و افطاری کا خصوصی اہتمام کرنا، بچوں کے ضروری کام نمٹانے کے ساتھ ساتھ انہیں نماز اور قرآن کی طرف متوجہ کرنا، صبح سے شام تک گھر کے تمام کاموں کو نمٹاتے ہوئے اگلے دن کی بھاگ دوڑ کا نقشہ اپنے ذہن میں تیار کرتے رہنا ہر خواتین کا شیوہ ہے۔
ان سب کاموں کے علاوہ اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق عبادت کرنا بھی خواتین کے لئے بہت اہم ہے۔چونکہ اس ماہ میں چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا اجر و ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اس لئے خواتین کو چاہیے کہ زیادہ وقت تلاوتِ قرآن، ذکر و اذکار اور دیگر نفلی عبادات میں گزارے۔
ماہِ رمضان میں اہلِ خانہ کی زبان کے چٹخارے پورے کرنے کے لئے دسترخوان پر نئی نئی ڈشز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
مگر ان کی خواہشات کی تکمیل میں مصروف رہتے ہوئے آپ کو عبادت کی جانب سے غافل نہیں ہو جانا چاہیے۔جس طرح آپ دسترخوان پر خصوصی پکوانوں کے ساتھ مختلف چٹنیاں رکھتی ہیں تاکہ ان کی لذت بڑھا سکیں بالکل اسی طرح فرض عبادتوں کے ساتھ نوافل و درود و وظائف کا بھی اہتمام کریں۔اس ماہِ مبارک کا ایک ایک لمحہ، ایک ایک پل اور ساعت قیمتی و انمول ہے۔روزانہ کئی کئی ڈشز بنا کر وقت، پیسہ اور توانائی کا اسراف کرنے کے بجائے دسترخوان پر مختصر لوازمات رکھیں بلکہ ”ون ڈش پالیسی“ اپنائیں۔
اپنے سحر و افطار کے حصوں میں غریب، مستحق اور نادار روزہ داروں کا حصہ بھی ضرور رکھیں۔استطاعت ہو تو ہفتے میں ایک بار یا پھر باری باری اپنے پڑوسیوں کو افطاری بھجوائیں۔افطار بناتے وقت بزرگوں اور مریضوں کا خاص خیال رکھیں بالکل ایسے جیسے آپ بچوں کے لئے ان کی پسند کے ہلکے پھلکے یا کم مرچ مصالحوں والے کھانے بناتی ہیں۔اس محنت اور ان کی خدمت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دعاؤں کا کوئی نعم البدل نہیں۔
بچوں کو دسترخوان پر بیٹھا کر صرف یہ نہ پوچھیں کہ وہ کیا کھائیں گے اور کیا پئیں گے بلکہ انھیں رمضان المبارک کے اصل مفہوم و مقصد اور فضیلت و اہمیت سے روشناس کروائیے۔روزانہ چھوٹی چھوٹی دعائیں یاد کروائیے۔سورتیں یاد کروائیے۔نماز کی ادائیگی اور تلاوت قرآن پاک کے وقت انھیں اپنے ساتھ شامل رکھیں تاکہ وہ اس کے بھی عادی ہو سکیں۔آج جو آپ انھیں سکھائیں گی وہی وہ آگے اپنی نسلوں کو منتقل کریں گے۔
ہمارے یہاں بچوں کی روزہ کشائی کرتے وقت بھی زیادہ تر زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ بس انھیں یہ بتایا جائے کہ تمہیں اتنے بجے سے اتنے بجے تک بھوکا پیاسا رہنا ہے۔اس کے بدلے میں تمہیں تمہارا پسندیدہ مینیو تیار کر کے دیا جائے گا۔گوکہ بچوں کی سمجھ بوجھ کے حساب سے بعض اوقات انھیں اس طرح سے بہلانا پھسلانا پڑتا ہے مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اسے روزے کے اصل مقصد سے لاعلم رکھا جائے۔اس حوالے سے اعتدال کی راہ اپنائیں، نہ بالکل لاتعلق ہو جائیں نہ زیادہ انتہا سختی برتیں۔قرآن کریم جو اس ماہِ مبارک میں نازل ہوا، اس کی تلاوت اور تراویح سے بھی ہر گز غافل نہ رہیں کہ سارا دن آپ کا کچن میں ہی گزر جائے۔