دنیا کا بلند ترین چرچ سگرادا فیمیلیہ( سفرنامہ سپین)

حسنین نازش:
قسط – 10
بارسلونا مولت پورٹا ڈی گیلکس اونٹ پٹانگ نامی اس ہوٹل میں فیصل رحمان اور میں نے رات گزاری – ہوٹل کی پیشگی بکنگ فیصل پہلے سے ہی کروا چکا تھا- ہوٹل کا نام تو خیر جیسا تھا لیکن تین ستاروں کی سہولیات سے مزین یہ ہوٹل صاف ستھرا اور آرام دہ تھا۔ یہ ہوٹل بارسلونا شہر کے مضافات میں واقع تھا۔یاد رہے کہ شعیب رات اپنی قیام گاہ لوٹ گیا تھا۔ ہم دونوں اس کے آرام اور خانگی زندگی میں خلل نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔
ہم ناشتے کا انتظار کیے بغیر ہی اس ہوٹل سے نکل پڑے اور دوبارہ سے لا رمبلا کی طرف ہماری گاڑی چل پڑی ۔
ہم نے گوگل چچا کی مدد سے پتہ لگالیا کہ ایسا کون سا ریسٹورنٹ ہے جہاں اس وقت حلال ناشتہ مل سکتا ہے۔
ہمارے موباہل کی سکرین پر درجنوں ہوٹل کے نام آگئے۔ پاکستانی، ہندوستانی، عرب وغیرہ لیکن ہمارا نظر انتخاب اندولیسیہ ہوٹل بنا۔ اس نام میں ایسی کشش تھی کہ ہم نے۔کسی دوسرے ہوٹل کے بارے میں سوچنا تک گوارا نہ کیا۔
اب گوگل چچا کی انگلی پکڑ کر ہماری گاڑی بالآخر کوئی آدھے پونے گھنٹے کے مسافت کے بعد اندلسیہ ہوٹل کے سامنے جا رکی۔
یہاں جا کر ہماری خوشی کو اس وقت چار چاند لگ گئےجب ہمارا استقبال سلیم لاہوری نے کیا- وہ ایک باورچی کی حیثیت سے گزشتہ 15 سال سےیہاں اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے ۔ داتا صاحب کا بہت بڑا شیدائی اور پیروکار تھا۔
سلیم لاہوری نے نہایت گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا-ڈھیٹ پنجابی میں گفتگو کی۔ وہ اس قدر باتونی تھا کہ بقول شاعر
ع وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
اس چھوٹے سے ہوٹل کی چھتیں ،دیواریں سب کی سب اسلامی فن تعمیر اور آرٹ کا خوب صورت نمونہ تھیں۔ ہسپانیہ کے مسلم حکمرانوں کا نعرہ اور مہر لا غالب الا باللہ
جا بجا کندہ نظر آیا ۔
اس ہوٹل میں آکے پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ یہ وہی سپین تھا جہاں 800 برس تک مسلمانوں نے حکومت کی ۔ آج بھی اس کے در و دیوار میں کہیں نہ کہیں ایسے نشان نظر آجاتے ہیں جو مسلمانوں کی عظمت کا منہ بولتا نشان ہیں۔

سلیم لاہوری کو یہ جان کر کے کہ ہم پاکستانی ہیں ہمارے لیے نہ صرف عمدہ نشستوں کا بندوبست کیا بلکہ ساتھ ہی ہمیں ہسپانوی کھانے پاکستانی مصالحوں کے ساتھ کھلائے ۔
اللہ کا نام لے کے ہم نے بھی ان کھانوں کے ساتھ خوب انصاف کیا- خوب سیر ہو کر ہم نے ناشتہ کیا جو ناشتہ کم اور کھانا زیادہ تھا –
سلیم لاہوری نے کمال مروت کا اظہار کرتے ہوئے ہم سے پیسے لینے سے انکار کر دیا لیکن ہم کیونکر ایسا کر سکتے تھے؟ زبردستی نہ صرف کہ پیسے دیے بلکہ ٹپ کی مد میں بھی کچھ اضافی ریزگاری اس کی نذر کی ہے-
وہ چلاتا رہالیکن ہم نے اس کی ایک نہ سنی اور اس کی یادوں کی خوش گوار پوٹلی سر پر رکھ کر یہاں سے نکل کھڑے ہوئے ۔
آج ہم دونوں کوشعیب کی رہبری کے بغیر ہی بارسلونا کھوجنا تھا۔شعیب کا اور ہمارا ساتھ ایک دن کا ہی رہا مگر یہ ایک دن سو دنوں پر بھاری تھا۔ میں تو ہمیشہ سے ہی اس بات کا قائل ہوں کہ اپ ایک سو دن اکیلے سفر کرنے سے بہتر ہے کہ آپ ایک رہبر یا ایک گائیڈ کے ساتھ کسی اجنبی مقام پر ایک دن گزاریں۔ شعیب کی ضرورت آج اس لیے بھی محسوس نہیں کی کیونکہ آج ہم بارسلونا کی سب سے اہم ترین سیرگاہ سگرادہ فمیلیہ چرچ دیکھنے جا رہے تھے ۔ جہاں آڈیو گائیڈ اور پیشی ورانہ گائیڈ چرچ ہی میں مہیا کیے گئے ہیں۔
میں نے جب پاکستان سے نکلتے ہوئے سپین کا نقشہ اپنے سامنے رکھا اور اہم ترین مقامات نشان زد کیے تو اس میں سگرادہ فمیلیہ کو اہم ترین مقام کادرج دیاتھا کیونکہ میرے لیے یہ اچھنبے کی بات تھی کہ اگر تاج محل جسے دنیا کا عجوبہ قرار دیا گیا ہے اس کی تعمیر میں 22برس کا وقت لگا۔ اہرام مصر بھی عجائبات عالم میں ہیں انہیں بنانے میں 20 سے 40 برس کا عرصہ لگاتو کوئی ایسا چرچ جس کی تعمیر کا آغاز 1882 میں ہوا اور اس کے باوجود ابھی تک اس کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی ۔141 برس ہو چلے ہیں اور لگتا ہے کہ اگلے تین برس تک اس کی تعمیر مکمل نہیں ہوگی- اس چرچ کی تعمیر کئی بار رکی۔ کبھی ہسپانیہ کی خانہ جنگی اس کا سبب بنی تو کبھی کرونا وائرس۔ کبھی تو معماروں کی موت اور کبھی پیسے کی کمیابی۔

ے کی غرض سے نہ تو حکومتی سرپرستی کی مدد لی گئی اور نہ ہی کوئی باقاعدہ بجٹ ہی مخصوص کیاگیا۔ اسے بنانے والے معمار انتونیو گاودی نے جب جب محسوس کیا کہ چرچ کی تعمیر کے لیے روہیہ درکار ہے تو اس نے چیتھڑے پہن کر سڑکوں،گلیوں اور محلوں میں چرچ کے لیے چندی اکھٹا کیا۔
شروع میں اس چرچ کو بنانے کی ذمہ داری انتونی گاؤدی کو نہیں سونپی گئی تھی جب 1882 میں اس چرچ کی پہلی اینٹ رکھی گئی تھی لیکن اگلے برس ہی یہ ذمہ داری انتونیوں گاؤدی کو دے دی گئی ۔ انتونیو گاؤ دی نے اس چرچ کو ڈیزائن کرتے ہوئے دو باتیں کہیں اول یہ کہ اس چرچ کو دیکھنے کے لیے صدیوں تک لوگ یہاں آتے رہیں گے ۔ دوسرا یہ کہ یہ چرچ خدا کے لیے بن رہا ہے اور خدا کے پاس بہت وقت ہے ۔
اس کی دونوں باتیں درست ثابت ہوئیں- ایک تو یہ کہ اگرچہ ابھی تک اس چرچ کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود ہر سال تقریبا 40 لاکھ سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں ۔ اگر آمدنی کا حساب لگایا جائے تو ہر سال قریب قریب دو ارب یورو اس چرچ کو سیاحت کے ضمن سے حاصل ہو رہے ہیں۔
دوسرا یہ کہ اج 141 برس ہو گئے ہیں اور اس چرچ کی تعمیر کا کام ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔انتونیو گاؤدی 1926 میں فوت ہوا اور اس کی صد سالہ وفات کے بعد 2026 میں اس چرچ کی تعمیر کو مکمل کیا جانا ہے۔ اب دیکھیے اس وقت تک اس چرچ کو مکمل کیا جائے گا یامزید وقت درکار ہوگا اس شاہکار کومکمل ہونے میں۔
اس چرچ نیا کو اگرچہ ابھی مکمل نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوجود اس چرچ کے کچھ حصے ابھی بھی عوام الناس کی صحت کے لیے کھول دیے گئے ہیں.

فیصل رحمان پہلے سے ہی 26 ڈالر 26 یورو فی کس کے حساب سے پیش کی بکنگ ان لائن کروا چکا تھا اس لیے ہمیں کتوروں میں کھڑے ہو کر دیر تک انتظار نہیں کرنا پڑا ۔
وہ لوگ جنہوں نے پہلے سے پیش کی بکنگ نہیں کرائی یا ان لائن بکنگ کا سلسلہ نہیں جانتے ہیں وہ ابھی بھی لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یورپ بھر میں اور امریکہ میں خاص طور پر جب کبھی بھی ایسی کسی سیاحتی مقام پر جانا ہو تو پہلے سے پیش کی ان لائن اگر بکنگ کرا لی جائے تو ایک تو کفایت رہتی ہے پیسوں کچھ کم ادا کرنے پڑتے ہیں اور دوسرا یہ کہ لمبی لمبی قطار میں کھڑے ہونے کی صفت سے بچا جا سکتا ہے ۔ میں نے ایک د پھر فیصل الرحمان کی کمال دانشمندی کو نظروں کی نظروں میں سلام پیش کیا ۔ ظاہر ہے جو لوگ ان معاشروں میں رہتے ہیں وہ ان علاقوں کے اور ان معاشرے کے طور طریقوں کو اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔ یہاں اندر جانے کے لیے ٹکٹ کے اوپر ہی یہ وقت درج ہوتا ہے ہم اپنے عین وقت کے مطابق 11 بجے سکر زیادہ فیمیلیا کے اندر داخل ہوئے ۔
سیکیورٹی چیک کے مرحلے سے نکلے تو یہاں اگے جانے کے بعد ہمیں اڈیو گائیڈ کا اعلی ہمیں دے دیا گیا ایپلیکیشن ہم نے ڈاؤن لوڈ پہلے سے کی ہوئی تھی اور اب ہم نے اپنے کان میں ٹوٹیاں لگا کر سگرادہ فمیلیا کی بنائے جانے کے ہسٹری کو سنت شروع کیا۔
چرچ کے میں داخل ہوتے ہی ہمارا استقبال یہاں دائیں بائیں اور تھوڑا اگے کر کے دو اور دروازوں یعنی کل ملا کر چار دروازوں نے ہمارا استقبال کیا جن چاروں کو جاپان کے ایک ارکیٹیکچر ایچی روز ساتو نے 1978 میں بنائے تھے ۔
کمال ہو گیا ہم توانتونیو گودی کے چرچ میں داخل ہوئے تھے لیکن یہاں ہمارا استقبال جاپانی آرکیٹکٹ کے بنائے گئے دروازےکو کھول کر کیا گیا-۔
چرچ کے مرکزی ہال میں داخل ہوتے ہی کشادگی کا احساس ہوا -عمارت کے اندرونی ہال میں پہلی نظر ڈالنے پر یوں محسوس ہوا جیسے ہم بلند بلند و بالا درختوں کے کسی جھرمٹ کے ایک مصنوعی جنگل کے بیچوں بیچ آ کھڑے ہوئے ہیں ۔
ایک ایسا جنگل جس میں درختوں کی جگہ ستونوں سے کام لیا گیا تھا- ایک ایسا جنگل جس میں بلند و بالا کھجور کے درختوں کے تنے ہم ایسے سیاحوں کے منتظر تھے ۔ بس ان درختوں کو خاص رنگ کر دیا گیا تھا۔ یہ ستون کی صورت میں اوپر جاتے ہوئے مینار اور چھت کو سہارا بخشتے ہیں ۔
یہی انتونیو گاودی کی سب سے بڑی کامیابی ہے کیونکہ وہ یہی چاہتا تھا کہ وہ اس چرچ کو فطرت یعنی نیچر سے سینچ کر ڈیزائن کرے۔ وہ اس کوشش میں اس حد تک کامیاب رہا کہ آنے والا ہر شخص خود کو ایک مصنوعی جنگل میں کھڑا پاتا ہے –
کوئی بڑا تعمیراتی شاہکار بنایا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کے ماڈل کو بنایا جاتا ہے اور ماڈل کو دیکھ کر ہی اصل عمارت بنائی جاتی ہے۔ یہاں بھی سگرادا فیمیلیہ کا ماڈل ایک شیشے کے کیس میں محفوظ کرکے لوگوں کے نظارے کےلیے سجایا گیا ہے۔
ایک طرف چار مختلف مجسمے دھرے ہوئے تھے جو غالبا چار فرشتوں کی نشاندہی کر رہے تھے۔ ان کے اوپر ان کے نام بھی کندھا تھے جو ہجوم کے سبب ہم سے نہیں پڑھے گئے ۔
مرکزی ہال کے نمایاں ترین مقام پر حضرت یسوع مسیح کا مجسمہ لائق تبریک ہے ۔ لوگوں کے جھرمٹ کے جرمٹ اس مجسمے کے ارد گر جا کر تصاویر لے رہے تھے۔
یہ مجسمہ یہاں رکھے گئے باقی مجسموں سے بلند تر اور نمایا ں ترین مقام پر رکھا گیا تھا۔
چرچ کے چاروں اطراف لگی کھڑکیوں میں ایسے اعلی قسم کے شیشے نصب تھے جن میں اگرچہ کسی قسم کی روشنی کا بندوبست نہیں کیا گیاتھا لیکن سورج کی روشنی ان کے اندر اس صورت اورزاویوں سے آ کرٹکراتی تھی کہ روشنی کے الگ الگ ساتوں رنگ مختلف مقامات پر ان کھڑکیوں کے شیشوں سے چھن چھن کر چرچ کے ہال میں ایسے بکھرتے جیسے چرچ کی دیواروں پر نیلے، نارنجی سبز اور دیگر رنگوں کے طاقت ور بلب نصب ہوں۔
یہ کہیں تو بےجا نہ ہوگا کہ انتونیو گاؤدی کو عمل انعکاس کا مکمل ادراک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے مصنوعی روشنی اور قمقموں کے بجائے اس قسم کے شیشے اس انداز اور اس زاویہ کے ساتھ نصب کیے کہ مصنوعی روشنی کے بجائے قدرتی روشنی کو کام میں لا کر چرچ کو منور کیا جائے ۔
یہ کس قدر خوش گوار حیرت کی بات ہے کہ ایک 31 سالہ نوجوان جو کہ دیکھا جائے تو اپنے پیشہ وارانہ زندگی کے اولین زینے پر ہی قدم رکھے ہوا تھا لیکن وہ سائنسی لحاظ سے اس کی فکر کا آج بھی کوئی جواب نہیں۔چرچ کا ایک ایک انچ ایک ایک سینٹی میٹر آرٹ کا اعلی ترین نمونہ ہے ۔ بغیر کسی کمپیوٹر اور کسی سائنسی مشین کے بغیر ڈیزائن کا یہ شاہکار یقینا صدیوں تک دیکھے جانے لائق ہے ۔
یہیں ایک طرف انتونیوگودی کا مجسمہ بھی موجود ہے یہ وہ سٹیچو تھاجو 1989 میں بنایا گیا۔
شیشوں کے ایک طرف ایک کونے میں بھل کھاتی ہوئی سیڑھیاں چرچ کے اوپری منزل کی طرف جا رہی تھی لیکن اس وقت انہیں بند کیا گیا تھا چونکہ یہاں اوپری سمت میں عمارت کا یہ حصہ زیر تعمیر تھا- اس لیے افسوس ہوا ہمیں ہمیں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانے کے اجازت نہ ملی- اس لیے مینار کی۔بلندی پربھی نہ جا سکے ۔
ایک طرف کونے میں روایتی کنفیشن روم ہے یعنی وہ اعترافی گناہ کا کمرہ جہاں کوئی بھی گنہگار جا کرپادری کا سامنا کیے بغیر اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اپنے پاپ دھو سکتا ہے۔
چرچ کے ایک خاص حصے میں عجائب گھر بھی بنایا گیا ہے- اس عجائب گھر میں ایسے تمام کاغذات نقشے اوردیگر تعمیراتی اشیاء موجود ہیں جو اس چرچ کے بنانے کے لیے استعمال کی گئیں-
ڈیزائن کے مطابق اس چرچ کی لمبائی دو سو فٹ ہے اس میں 9 ہزار افراد کی گنجائش ہوگی۔ اس کے میناروں کی اونچائی 560 فٹ تک ہو سکتی ہے جو ابھی تعمیر ہونا باقی ہے- چرچ کے کل 18مینار ہوں۔
اسی سگرادا فیمیلیہ چرچ کے قریبی ساحلی پٹی کے قریب ایک بوڑھا معمول کی شام کی واک کرنے نکلا۔تھا۔ اس کی بڑھی ہوئی داڑھی پھٹے پرانے کپڑوں سے وہ کوئی بھکاری لگ ریا تھا۔ جانے اسے کہاں پہنچنے کی جلدی تھی۔ ریل کی پٹڑی بنا دیکھے پار کرنے لگا۔ یہاں کی ریل گاڑی 1926میں بھی وقت پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھی۔ بوڑھا ٹرین سے ٹکرا کر بری طرح زخمی ہوا۔ اس کی وضع قطع اور پھٹے پرانے کپڑوں کے سبب ایک تو اس زخمی کو بروقت ہسپتال نہ پہنچایا گیا۔ ادھر ہسپتال میں اس کی طبی امداد میں بھی اس کی عسرت کے سبب سستی’ کاہلی اور غفلت برتی گئی۔ بوڑھا ناکافی اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب جاں بحق ہوگیا۔ اس کی میت دو دن تک لاوارث رہی۔ بالآخر ہسپتال کے عملے کے ایک فرد نے اسے پہنچا لیا۔ بظاہر گداگر نظر آنے والا بوڑھا انتونیو گاودی تھا۔ جس نے اپنی زندگی کے آخری 43برس سگرادافیمیلہ چرچ کوبنانے میں صرف کر دئیے۔
انتونیو گاودی اسی چرچ کے تہہ خانے میں دفن ہے۔ صد افسوس کہ ہنوز زیر تعمیر ہونے کے سبب چرچ کے جن حصوں کو بند کیا گیا تھا۔ ان حصوں میں ایک حصہ تہہ خانے کا بھی ہے جہاں انتونیو گاودی دفن ہے۔

جاری ہے…..

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں