علم کی دولت

محمد سرور چغرزی:

’’آج تم پھر آگئے اور ساتھ کتاب بھی نہیں لائے۔ گھر جاؤ تمہاری امی اکیلی ہیں، ان کے ساتھ کام کرو۔‘‘
’’ بیٹا ! آج بہت گرمی ہے،بیمار ہو جاؤگے۔جائو گھر جاؤ۔ ‘‘
’’کل سے تمہیں ٹیوشن سنٹر جانا ہوگا۔ میری سر آصف سے بات ہوگئی ہے۔‘‘
میرے ابو کے یہ سب بہانے مجھے کھیتوں میں کام سے روکنے کےلئے تھے۔ مجھے کبھی ٹیوشن سنٹرداخل کراتے، کبھی دوسرے حیلے بہانوں کی آڑ میں کھیتوں سے دور رکھتے۔یہ چند سال پہلے کی بات ہے، جب میں دوسری کلاس میں تھا۔ میں سکول سے پانچ کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرکے واپس آتا۔ گھر پر کھانے کو کبھی مکئی کی روٹی ہوتی تو کبھی گاؤں کے نواب کے گھر سےآئی باسی روٹی۔ وہ دن تو میرے لئے عید کا ہوتا، جس دن گاؤں کے نواب کے گھر سے تھوڑے سے شوربہ کے ساتھ ایک بوٹی آتی۔ ابو اور امی روکھی سوکھی کھا کر وہ بوٹی اور شوربہ میرے لئے رکھ دیتے ۔کھانے کے بعد جب میں امی سے ابو کے بارے میں پوچھتا تو ان کا اکثر جواب ہوتا ’’ کھیتوں میں کام کرنے گئے ہیں۔‘‘
کھیتوں کی کہانی یہ ہے کہ گاؤں کے نواب علیم خان نے ابو کو غریب و لاچار جان کر چھ ہزار ماہانہ اپنے کھیتوں کی دیکھ بھال اور پانی دینے کےلئے رکھ لیا تھا۔میں امی کا جواب سن کر کپڑے بدلتا اور کھیتوں کا رُخ کرتا اور اپنے کمزور و ناتواں ہاتھوں سے کام میں ابو کے ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتا۔ میں نے کئی بار اپنے ابو کو کھیتوں میں، گاؤں کے نواب سے گالیاں کھاتے اور سخت سست برداشت کرتے دیکھا۔ نواب معمولی معمولی باتوں پر میرے ابو کو دھکے دیتا اور لاتوں اور گھونسوں کی بارش کرتا۔ میں ابو کی بےبسی دیکھ کر چیختا چلاتا لیکن میری صدا، صدا بصحرا ثابت ہوتی۔ابو مجھے کھیتوں سے اس لئے بھی دور رکھتے کہ میں ان کی بےبسی اور بےعزتی دیکھ کر کہیں احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو جاؤں۔
ابو نے کئی بار مجھے ٹیوشن سنٹر داخل کرایا لیکن نواب علیم خان کی درشت مزاجی دیکھ کر ، میرا ابو کو اکیلا چھوڑنے کا جی نہ چاہتا۔ میں یہ سوچتا کہ بوقت ضرورت چیخ چلا کر ہی ابو کی مدد کرسکوں۔ میں نے ٹیوشن سنٹر نہ جانے کی ضد کی۔ ابو میری ضد کے سامنے ہار مان گئے۔ وہ اس بات پر راضی ہوگئے کہ ٹیوشن سنٹر نہ جاؤ لیکن تمہیں کتابیں لاکر کھیتوں میں پڑھنا ہوگا۔تین دن تو کھیتوں میں دل لگا کر پڑھا۔ چوتھے دن ابو کو پسینے میں شرابور دیکھ کر دل مسوس کر رہ گیااور لگا میں بھی کام کرنے۔ ابو کے بار بار منع کرنے کے باوجود میں کہاں رکنےوالا تھا۔ سورج کے مغربی دھندلکوں میں پنہاں ہونے تک میں پوری جاں فشانی سے کام میں جتا رہا۔
کھیتوں سے گھر واپس آتے ہی مجھ پر بخار نے ایسا حملہ کیا کہ میں چلنے کے قابل رہا نہ پھرنے کے۔ تھکاوٹ سے چور ابو رات دیر تک میرے سر پر پٹیاں رکھتے رہے۔ جب پٹیاں رکھتے رکھتے اُکتا جاتےتو اپنے سر کو میری طرف جھکاتے اور بوسا دیتے۔اب ان کی آنکھوں سے نکلا سیل رواں میری پٹیوں کی خدمت سر انجام دیتا۔ یہ رات میرے لئے لمبی ہوگئی تھی اور پھر نجانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ صبح کی اذان کی آواز سن کر میری آنکھ کھلی تو ابو میرے چارپائی کے سرہانے بیٹھے مجھ سے مخاطب تھے۔ ’’بیٹا ! اب طبیعت کیسی ہے؟ ‘‘
میرے منہ سے بےساختہ آواز نکلی: ’’ابو ابھی تک آپ سوئے نہیں۔‘‘ ابو نے درد بھری آواز سے جواب دیا ’’ ہاں بیٹا مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔‘‘
میں نے پانچ دن اسی بخار میں گزارے ۔پوری داستان لکھنے کی سکت تو مجھ میں نہیں اور قلم تو پہلے ہی آنسوبہاتا اور دبی دبی سسکیاں لیتا خاموش ہونے کو ہے۔چھٹے دن میں چلنے پھرنے کے قابل ہوا۔ شام کے ملگجے اندھیرے میں ابو میرے لئے بہت سے کھلونے اور پھل لائے۔ مجھے بلاکر اپنے قریب بٹھایا۔ دیر تک مجھ سے آنکھیں چار کرتے رہے۔ میں بھی ان کی آنکھوں میں دیکھتا رہا کہ ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں، آنسوؤں کا تار ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ انہوں نے مجھے اپنی آغوش میں لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ میرے ضبط کے بندھن بھی ٹوٹ گئے اور رو دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ گھر کے در و دیوار بھی ہمیں دیکھ کر رو رہے ہیں۔ آج بھی جب چشمِ تصور سے ماضی کی ان دل سوز مناظر کو دیکھتا ہوں تو روئے بغیر نہیں رہتا۔جب ابو سنبھلے تو میں نے ان کی رندھتی ہوئی آواز کے ساتھ چند جملے سنےجو آج تک میرے صفحہء دل پر نقش ہیں۔’’بیٹا یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ تم میری فکر نہ کرو۔اپنی پڑھائی پر توجہ دو تاکہ کل تم ایک اچھے انسان کہلا سکو ۔‘‘
اس دن سے میں نے کتاب سے دوستی پکی کرلی۔ ٹھیک آٹھ سال بعد میں فرسٹ ائیر میں ہوںاور ہاں وہ وقت بھی گزر گیا ہے۔اللہ پاک نے نواب علیم خان سے بھی سے بھی جان چھڑا دی ہے۔ عزت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کھلا پلا رہے ہیں۔ اس دن اور آج کے دن کا جب موازنہ کرتا ہوں تو ایک چیز ضرور مشام جاں کو نہال کرتی ہے کہ نواب علیم خان کا بیٹا پرائیویٹ سکول میں پڑھنے کے باوجود میٹرک میں فیل ہوچکا ہے جبکہ نواب علیم خان سے دھکے کھانے والے کے بیٹے نےگورنمنٹ اسکول میں زیرِ تعلیم رہنے کے باوجود میٹرک A / اے گریڈ سے پاس کیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں