پتھر کی سرگذشت( روسی ادیب فیودور سلوگب کے قلم سے)

شہر میں پتھر کی ایک سڑک تھی۔گزرتی ہوئی گاڑی کے پہیے نے ایک پتھر کو دوسرے پتھروں سے جدا کردیا۔ اس پتھر نے دل میں سوچا۔’’ مجھے اپنے ہم جنسوں کے ساتھ موجودہ حالات میں نہیں رہنا چاہئے۔ بہتر یہی ہے کہ میں کسی اور جگہ جا کررہوں‘‘۔

ایک لڑکا آیا اور اس پتھر کو اٹھا کرلے گیا۔
پتھر نے دل میں خیال کیا۔’’ میں نے سفر کرنا چاہا تو سفر بھی نصیب ہوگیا۔۔۔۔۔۔ صرف آہنی ارادہ کی ضرورت تھی‘‘۔ لڑکے نے پتھر کو ایک گھر کی جانب پھینک دیا۔

پتھر نے خیال کیا’’ میں نے ہوا میں اڑنا چاہا تھا۔ یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔۔۔ صرف ارادہ کی دیر تھی۔ پتھرکھٹ سے کھڑکی کے شیشہ پر لگا۔
شیشہ یہ کہہ کر چکنا چور ہوگیا۔’’بدمعاش۔۔۔۔۔۔ ایسا کرنے سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ تم نے بہت اچھا کیا۔ جو میرے راستے سے ہٹ گئے۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ میرے راستے میں حائل ہوں‘‘۔ ہر ایک چیز میری مرضی کے مطابق ہونی چاہئے۔ یہ میرا اصول ہے‘‘۔

یہ کہہ کر پتھر ایک نرم بسر پر جا پڑا۔
پتھر نے بستر پر پڑے ہوئے خیال کیا۔’’ میں نے کافی سفر کیا ہے اب ذرا دو گھڑی آرام تو کرلوں‘‘۔

ایک نوکر آیا اور اس نے پتھر کو بستر پر سے اٹھا کر باہر سڑک پر پھینک دیا۔ سڑک پر گرتے ہی پتھر نے اپنے ہم جنسوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔’’ بھائیو! خدا تمہیں سلامت رکھے۔ میں ابھی ابھی ایک عالیشان عمارت سے ہو کر آرہا ہوں ۔لیکن اسکی شان و شوکت مجھے بالکل متاثر نہ کرسکی۔ میرا دل تم لوگوں کی ملاقات کیلئے بیتاب تھا۔ چنانچہ اب میں واپس آگیا ہوں۔‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں