حسنین نازشؔ:
قسط .21
صبح سویرے اٹھتے ہی ہوٹل سے ایک بار پھر بھرپور ناشتہ کر کے مورسیہ شہر کی گلیوں کوناپنے کو تیار ہو گئے۔ہم مورسیہ کی دھوپ سے سجی گلیوں میں گھوم رہے تھے۔ شمسی شعاعیں، شہر بھر پر ضوفشانی کر رہی تھیں۔ گلی کوچوں کی عمارتوں کاہر پتھر، ہر اینٹ، اور ہر فانی روح خورشیدی چمک سے رنگا ہوا لگ رہا تھا۔ہر قدم کے ساتھ ہمارے قدموں کے نیچے گرم فرش شہر ِ مورسیہ کی نبض کی گویا تال سنا رہا تھا۔ جیسے مورسیہ کے وجود کا جوہر ہمارے جوتوں کے تلووں سے منتقل ہو رہا تھا۔ ہوا، نارنجی کے پھولوں کی میٹھی خوشبو سے سرشار، ہمارے اردگرد آہستگی سے لہراتی ہوئی آگے بڑھ جاتی تو اس کی خوشبو ہمارے حواس کے سُریلے تاروں کو چھیڑ جاتی اور یوں اس تازہ فضا کی لہر ہمیں بے ساختہ مسرتوں کے دائرے میں لے جا رہی تھی۔
میں اور عاصم چہل قدمی کرتے کرتے ہوئے مورسیہ شہر کے پردوں میں چھپے رازوں کے پرت ایک ایک کر کے آشکار کرتے چلے گئے-
قدیم اور جدید، موریش اور گوتھک کے پیچیدہ نقش و نگار اور آرائشی بالکونیوں سے مزّین عمارتوں کے حسین پہلو کسی گزرے ہوئے دور کی کہانیاں سناتے نظر آرہے تھے۔ ان عمارتوں کے پتھروں کی آب وتاب امتدادِ زمانہ اور تاریخ کے انمٹ نشانات کی گواہی دے رہی تھیں۔
ہمارے بھٹکتے، بے مقصد اور لاپروا قدم کسی نئے تجرنے کسی نئی ٹھوکر سے کسی نئی دریافت کے متلاشی تھے۔
صبح کا پُرنور وقت تھا۔ دکانوں میں ابھی خاموشی چھائی ہوئی تھی البتہ کافی شاپس اور ریستورانوں میں خوب گہماگہمی تھی۔ مرکزی شاہراہ سے جڑی تنگ گلیاں، انسانی سروں سے پُر نظر آرہی تھیں۔ مورسیہ شہر کے خوشگوار ماحول میں جوں جوں سورج اوپر کو اٹھتا چلا جا رہا تھا توں توں مورسیہ شہرکے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔ جیسے ہی سورج اپنے عروج پر پہنچا مکانوں اور تجارتی پلازوں کی چھتوں پر چمک لہرا اٹھی۔ ہم تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک بڑے چوک یعنی سکوائر میں آن کھڑے ہوئے۔ سکوائر کا مرکزی فوارہ ارد گرد کی عمارتوں کو ایک مدھر سیر گاہ بنارہا تھا۔ ہم بھی نہ چاہتے ہوئے یہاں رک گئے۔ پانی کے مسلسل پتھر پر گرنے سے ایک مسحورکُن آواز پیدا ہورہی تھی۔ اس آوازمیں سُر تھا، گیت تھے، راگ راگنیاں تھیں جن کے سبب ہماری روحیں اس سنگیت کی رو میں بہہ گئیں۔
اس قلیل لمحے میں یوں لگا جیسے وقت ساکت ہو گیا تھا۔ساری کی ساری دنیا گویا اس چھوٹے سے چوک (سکوائر) کی حدود میں سمٹ گئی تھی جہاں چشمے کے پانیوں کا ہلکا سا رقص، سورج کی تپش اور نارنجی کی میٹھی خوشبو سب ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہو کرایک نیا جہاں آباد کر رہی تھیں۔ اس حسین لمحے کی بے وقت خوبصورتی میں ڈوبے ہم جانتے تھے کہ ماہِ مئی کے وسط میں مُورسیہ کا یہ دن ہمیشہ کے لیے ہماری یادوں میں نقش ہو جائے گا۔
جیسے ہی ہم شہر کی قدیم عمارتوں کی شکستہ دیواروں کے قریب پہنچے، زنگ آلود پتھر کسی گزری ہوئی تہذیب کی کہانیاں سناتے دکھائی دے رہے تھے-ان کے مہکتے ہوئے چہرے پر وقت کے نشانات اور بحیرہ روم کے سورج کی ہلکی سی دھڑکن تھی۔یہ دیواریں جو کبھی جنگ کی تباہ کاریوں کے خلاف ایک مضبوط قلعہ تھیں، اب انسانی کوششوں کی تبدیلی کے ثبوت کے طور پر ہمارے سامنے کھڑی تھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بظاہر ناقابل تسخیر مضبوط قلعے بھی آخر کار تقدیر کے چکروں کے تابع ہوتے ہیں۔
جب ہم تنگ گلیوں میں گھوم رہے تھے تو قدیم عمارتوں کے سائے ایک فراموش قوم کے عظیم معماروں کے انسانی ہیولوں کی مانند اکٹھے ہوتے دکھائی دے رہے تھے- کھجور کے درختوں سے ہوا کی نرم سرسراہٹ، پرندوں کی ہلکی ہلکی چہچہاہٹ، اور مسجد سے دور دراز کی آذانیں سب ایک ساتھ گھل مل گئیں جو ہمیں ایک مانوس اور پھر اگلے ہی۔لمحےبالکل اجنبی دونوں جگہوں پر لے جا رہی تھیں-
یہاں سےہم نے المودی محل کے پہلو کا رخ کیا- اس کی پیچیدہ تراشی ہوئی پتھر کی دیواریں موریش کاریگروں کی فنکارانہ صلاحیتوں کا اب بھی منہ بولتا ثبوت تھے-
جیسے ہی ہم نے محل کی دہلیز کے پار قدم رکھ کر محل کے اندرونی حصے پر نظر ڈالی تو ہمیں عیش و عشرت کی دنیا میں لپیٹا ہوا محل نظر آیا- عربوں کی نازک پیچیدہ پچی کاری، اور بڑھتی ہوئی محرابیں سب مل کر ایک دم توڑ دینے والی خوبصورتی اور تطہیر کا ماحول بنارہی تھیں۔
جیسے جیسے سورج کی روشنی شام کے رینگنے والے سائے کے سامنے دم توڑتی گئی مورسیہ شہر ایک صوفیانہ تبدیلی سے گزرنا شروع ہوا۔
سڑکیں، جو کبھی شہر کے مکینوں کی متحرک، روزمرہ سرگرمی سے بھری ہوئی گٹار کی مدھر آواز، قدیم موریش طرز کے مکانات کی کھڑکیوں سے لہراتی ہوئی، چمبیلی اور نارنجی پھولوں کی میٹھی، کڑوی خوشبو کے ساتھ گھل مل کر، ایک پرفتن ماحول کو۔جنم۔دے۔رہی تھیں جس نے شہر بھرکو اپنی لپیٹ میں لےرکھاتھا۔
ہم مورسیہ شہرکے جدید راستوں سے گزر رہے تھے، موسم گرما کا چمکتا ہوا سورج ہم پر اپنی چمکیلی شعاعیں ڈال رہا تھا-
جیسے جیسے ہم ان گلیوں سے گزرتے جا رہے تھے سورج کی چمک شہر کےجدید پہلوؤں کو روشن کرتی ہماری آنکھوں کے سامنے رقص کر رہی تھی، وجودیت کی باریکیوں، مابعد جدیدیت کی جدلیات، اور انسانی تجربے کی عارضی نوعیت کو چھوتی رہی تھیں۔
یہاں سے آگے بڑھتے ہم ایک ایسے چوک کی طرف چلے گئے جہاں کھدائی کا عمل جاری تھا- یہ کھدائی ان کھنڈرات کی کی جا رہی تھی جو صدیوں پہلے یہاں اسلامی تہذیب اور ثقافت کے نمائندہ ہوا کرتے تھے ۔ یہ کھنڈرات آج سے نہیں بلکہ کئی سال پہلے سے یہاں موجود تھے- آج کل یہاں صفائی ستھرائی اور ازسر نو تعمیر کا کام جاری تھا ۔ یہ ان خاص مقامات میں سے ایسا ایک مقام تھا جو ہم جیسے بدیشی مسلمانوں کے لیے ایک مرجہ خلائق تھا جس کو دیکھنے کی خاطر ہی تو ہم یہاں مرسیہ سیوطی اور جانے کون کون سے شہروں اور قصبوں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں ۔
کھنڈرات کے ایک طرف یہاں مسجد کی چند شکستہ محرابیں نظر آرہی تھیں اور ایک طرف حمام۔ مسجد اور حمام کے علاوہ کیا کچھ تھا اس کی محض بنیادیں ہی تھیں۔ ان بنیادوں کے اوپر کون سی عمارت کھڑی تھی اس کامحض اندازہ ہی لگایا جاسکتا تھا۔ شاید کسی قاضی کی عدالت، شاہی اصطبل، ایوان عام یا ایوان، مورسیہ کے امیر کا گھر کچھ بھی ہو سکتا تھا-یہ خاص طرح کی مسلم طرز تعمیر کی عمارتیں ہمارے خیالات ہی میں نظر آرہی تھیں۔ عمارتیں تو نہ تھیں لیکن کھنڈرات تھے جواب بھی چیخ چیخ کر بتا رہے تھےکہ کبھی عمارت خوب تھی۔
جاری ہے۔۔۔۔