بارسلونامیں مسلم حکومت اور ابو عامر المنصور( سفرنامہ سپین)

حسنین نازش:
قسط – 11
عبدالرحمن سوئم کا دور 961 میں اختتام پذیر ہوا 961 میں جب 49 برس حکومت کرنے کے بعد ان کا انتقال ہوا تو وہ اپنے بیٹے الحکم کو اپنا جانشین مقرر کر چکے تھے۔الحکم کی تربیت بھی انہوں نے اپنی نگرانی میں کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ الحکم بھی عبدالرحمن سوئم کی طرح ایک قابل حکمران ثابت ہوئے۔ انہوں نے الحکم ثانی کے نام سے 15 برس تک پرسکون طریقے سے اندلس پر حکومت کی۔ یاد رہے کہ اس وقت اندلس میں خلافت کا نظام رائج ہو چکا تھا۔اس دوران عیسائیوں نے مسلم علاقوں پر کوئی بڑا حملہ نہیں کیا۔ 976 میں الحکم کا بھی انتقال ہو گیا۔ ان کے وفات ایک 38 سالہ درباری کے لیے نعمت ثابت ہوئی جو اموی دربار کا سب سے طاقتورعہدہ یعنی وزیراعظم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہ تھے ابو عامر محمد بن عبداللہ۔ ابو عامر خلیفہ تھے اور نہ ہی شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن وہ عرب تھے اور یہ کہا جاتا تھا کہ ان کے آباؤ اجداد نے اندلس کی فتح میں طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کے شانہ بشانہ حصہ لیا تھا۔عامر نے نوجوانی ہی میں ہی یہ طے کر لیا تھا کہ وہ ایک دن اندلس کی سب سے طاقتور شخصیت بنیں گے۔اس مقصد کو دل میں جگہ دے کروہ اپنے آبائی علاقے (جو کہ سپین کا ایک ساحلی علاقہ ہے) چھوڑ کر قرطبہ چلے آئے اور یہاں انہوں نے شرعی قوانین کی تعلیم حاصل کی۔یہ وہ دور تھا جب اندلس کے اموی دربار میں پڑھے لکھے لوگوں کی بہت قدر کی جاتی تھی۔ ابوعامر کو بھی اپنی علمی قابلیت کے بل بوتے پر شاہی دربار تک پہنچنے کا موقع مل گیا۔ دربار میں رہتے ہوئے انہوں نے شاہی خاندان سے بھی رابطے قائم کر لیے۔ خلیفہ الحکم دوئم کی بیوی ملکہ صبا ء بھی ابوعامر کی صلاحیتوں کی معترف تھیں اس لیے وہ ان پر خاص طور پر مہربان تھیں۔ انہوں نے ابو عامر کو اپنی مالی معاملات کا نہ صرف مشیر بلکہ نگران مقرر کیا۔

جب976 میں الحکم ثانی کی وفات ہوئی تو ان کے جانشین ہشام ثانی کی عمر محض 14 برس تھی۔ خلیفہ حاکم ثانی نے اپنے بیٹے ہشام کی مناسب عسکری اور سیاسی تربیت نہیں کی تھی یا شاید موت نے انہیں ایسا کرنے کی سرے سے مہلت ہی نہیں دی۔
اس لیے محض14 سالہ کم عمر اور ناتجربہ کار نئے خلیفہ ہشام ثانی اپنے طاقتور درباریوں کے رحم و کرم پر تھے۔ الحکم ثانی کی موت کے ساتھ ہی دربار میں سازشیں شروع ہو گئیں یعنی حکمران طبقے کے ہر گروہ نے اپنی مرضی کا خلیفہ لانے کے لیے پاور گیمز شروع کر دیں۔ ان پاور گیمز میں شاہی محل کے دربان بھی شانہ بشانہ تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے تو یہ کیا کہ خلیفہ کی موت کو خفیہ رکھا۔ان کا منصوبہ تھا کہ عام لوگوں کو خلیفہ کی موت کا علم ہونے سے پہلے ہی خلیفہ کے بڑے بھائی المعیرہ کو نیا خلیفہ مقرر کردیا جائے۔
اس سازش کی خبر کسی طرح ابن ابی عامر کو ہو گئی۔ انہوں نے فوری طور پر ایک سو سپاہیوں کا دستہ اکٹھا کیااور المغیرہ کے پاس جا پہنچے۔ انہوں نے المغیرہ کو ان کے اہل خانہ کے سامنے ہی گلا دبا کر قتل کر دیا۔ اس کے بعد باقی درباری سازشیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔بہت سوں کو جلا وطن کر دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ ابی عامر نے اپنے تمام مخالفین کو ایک ایک کر کے ختم کیا اوربلا کسی تامل کے وزیراعظم کا عہدہ جلیلیہ سنبھال لیا۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب ابن ابی عامر نو عمر خلیفہ ہشام ثانی کے سرپرست بھی تھے اور سلطنت کے وزیراعظم بھی۔ ان کا اندلس میں سب سے طاقتور شخص بننے کا خواب پورا ہو چکا تھا۔ وزیراعظم بننے کے بعد ابو عامر نے خلیفہ کوبالکل ہی سائڈ لائن کر دیا اور سارے حکومتی معاملات اپنے ہاتھ میں رکھے لیے۔یوں خلیفہ کی حیثیت دربار میں کٹھ پتلی کی سی بن کررہ گئی۔ وہ اپنی مرضی سے اپنے محل سے باہر بھی نہیں جا سکتے تھے۔ محل کے اندر بھی ہر وقت جاسوسی کی جاتی تھی۔ یوں مسلم اندلس میں ابن ابی عامر ہی سب کچھ تھے بلکہ سلطنت کے ڈیفیکٹو حکمران بھی وہی تھے۔ابن امی عامر نے المنصور یعنی فاتح کا لقب اختیار کیا۔وہ ان مسلم رہنماؤں میں شامل تھے جنہیں عیسائی ریاستوں کی طرف سے مسلمانوں کو لائق خطرات کا پورا ادراک تھا۔اس لیے انہوں نے وزیراعظم بن کر عسکری طاقت میں اضافہ کیا۔ انہوں نے اپنی فوج کی تعداد میں اضافہ کیا اور اس میں مختلف قبیلوں اور قوموں کے لوگوں کو شامل کیا۔ انہوں نے افریقہ سے بربر جنگوں کو اندلس بلوا کر بھاری تنخواہوں پر ملازم رکھا۔ اس طرح انہوں نے سلطنت کی فوجی طاقت میں بھرپور اضافہ کیا۔ابوعامر کی حکمت عملی یہ تھی کہ دشمن کے وار کرنے سے پہلے ہی اس پر حملہ کر دو اور اسے مسلسل دباؤ میں رکھو۔ چنانچہ ابو عامر نے اپنے دور حکومت کے دوران عیسائی ریاستوں پر 50 سے زیادہ حملے کیے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ہر برس کم از کم دو مرتبہ عیسائی ریاستوں پر دھاوا بولتے تھے۔ انہوں نے شمالی سپین کے دور دراز علاقوں میں جا کر بھی صلیبی لشکروں کا مقابلہ کیا۔ ان کی ریاستوں پر حملے کیے۔
مسلم مورخین زیادہ تر غرناطہ، قرطبہ، اشبیلیہ وغیرہ کے قصے تو رقم کرتے ہیں مگر شمالی سپین کے علاقوں اور خاص کر بارسلونا کا محض سرسری ذکر ہی کرتے ہیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم مورخین کے قلم کو اس شہر میں وہ مزہ‘ لطف اور دلچسپی محسوس نہیں ہوئی جو اندلوسیہ کے بڑے شہروں میں محسوس ہوئی ۔ اس کی وجہ محض یہ نہیں کہ وہ علاقہ مسلمانوں کی سپین پر حکومت کا مرکز رہا ہے بلکہ اس ریجن کے شہر مالقہ‘ قرطبہ‘ غرناطہ‘ اشبیلیہ اور طلیطلہ اپنے خاص طرزِ تعمیر ‘تہذیب اور اپنی خاص بودو باش کے حوالے سے اتنی خوبصورتی کے حامل تھے کہ بار سلونا اور میڈرڈ جیسےبڑے اور جدید شہر ہونے کے باوجود مسلم مورخین کے قلوب پر کوئی خاص نقش چھوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔

اگرچہ بارسلونا بھی کسی زمانے میں مور سلطنت یعنی اسلامی سلطنت کا حصہ رہا لیکن یہ عرصہ دیگر شہروں اور علاقوں کی نسبت بہت مختصر تھا۔ اندلوسیہ کے مختلف علاقے پانچ سو سے سات سو سال تک مسلم سلطنت کا کسی نہ۔کسی طرح حصہ رہے جبکہ بارسلونا ان کے مقابلے میں محض اکیاسی برس مسلم سپین کا حصہ رہا۔ یہ شہر 720 عیسوی میں فتح ہوا اور 81 سال بعد چار اپریل 801ء میں تقریباً چھ ماہ کے محاصرے کے بعد گورنر سعدون الرعینی اور بار سلونا کے ولی ہارون البرشلونی نے ہتھیار ڈالے اور بار سلونا عیسائیوں کی مشترکہ فوج جس کی کمان لوئیس دی پائیس، ولیم آف گیلونی اور روسٹینگ آف جیرونا کے پاس تھی‘ نے اس پر قبضہ کر لیا۔ اسکے بعد ہسپانیہ کے دیگر حصوں میں تو مسلم حکومتیں مزید 400 سے 450 سال تک قائم رہیں تاہم بار سلونا اورپامپلونا وغیرہ درمیان میں صرف اس تھوڑے سے عرصہ میں دوبارہ فتح ہوئے-
ہاں تو بات ہو رہی تھی ابو عامر المنصور کی جب انہوں نے 985ء میں بار سلونا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اس سارے علاقے پر جس میں بارسلونا پامپلونا‘ لیون اور کاسٹائل کی ریاستیں شامل تھیں قبضہ کر لیا۔
ابن ابی عامر نے شمالی سپین میں ریاستوں پر حملے کیے۔ انہوں نے شمالی سپین میں فرانس کے سرحد کے قریب بارسلونا کو بھی تباہ و برباد کیا۔ان کے انہی حملوں کے سبب بارسلونا میں ہون صدی سے کچھ زیادہ عرصے تک مسلمانوں کی حکومت کسی نہ کسی طور قائم رہی- اس لیے میں بارسلونا میں مسلم حکومت کے باب میں ابو عامر المنصور کا تذکرہ کروں گا۔
بطور کمانڈر اور جرنیل ان کی قیادت میں ہونے والی فتوحات ایسی حیران کن اور اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے سامنے اس دور کے اصل حکمران اموی خلیفہ کی شخصیت بالکل ماند پڑ کر رہ گئی تھی-یہی وجہ ہے کہ سپین کی تاریخ میں اس دور کو خلیفہ ہشام دوم کے بجائے ابو عامر المنصور کے دورِ حکومت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اپنی محیر العقول فتوحات اور برق رفتار پیش قدمی کے باعث وہ اپنی کنیت”المنصور‘‘ یعنی فتح یاب‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ابو عامر المنصور نے کم و بیش 56 جنگوں اور معرکوں میں اپنی فوج کی قیادت خود کی اور ان میں فتح مند رہا۔
ان کا دور 976ء سے 1002ء تک یعنی کل چھبیس سال پر محیط ہے مگر ان چھبیس سال میں ان کی فتوحات کی اتنی طویل فہرست ہے کہ تاریخ بھی اسے پوری طرح سمونے سے قاصر ہے۔ ایسا حیران کن منتظم اور ایسا جری سپاہی کہ ان کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ وہ قریب 26 برس تک اندلس کی سلطنت کے سیاہ و سفید کے مالک رہے مگر جب وفات پائی تو اس طرح کہ انہیں جو کفن پہنایا گیا وہ ان کی بیٹیوں نے اپنے ہاتھ سے کات کر بُنا تھا-انہوں نے ترکے میں محض چند اشرفیاں چھوڑیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بیوی سوت کات کر گزارہ کرتی رہیں۔ ابو عامر المنصور کا معمول تھا کہ وہ جنگ سے واپسی پر اپنے چہرے پر پڑی ہوئی دھول اور مٹی اپنے خنجر کی تیز دھار سے اتارتے اور اسے ایک ڈبیہ میں جمع کر لیتے۔8اگست 1002ء کو 64 برس کی عمر میں ابو عامر المنصور کا انتقال ہوا۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں غسل دینے کے بعد اس ڈبیہ میں موجود ساری مٹی جو میدانِ جنگ کی گرد اور دھول پر مشتمل تھی ان کے چہرے پر چھڑکی گئی۔ وہ اپنے اللہ کے ہاں اس صورت میں حاضر ہونا چاہتے تھے کہ ان کا چہرہ اسی مٹی سے اَٹا ہو جو انہوں نے اپنے مالک کے دین کی سربلندی کیلئے جنگ کرتے ہوئے اپنے چہرے پر سجائی تھی۔ ابو عامر المنصور قرطبہ سے دور کا سٹائل اور لیون کے شہر مدینہ سیلی میں آسودۂ خاک ہیں۔
عبدالرحمان سوئم اور ابن ابی عامر اندلسی مسلمانوں کے وہ طاقتور حکمران تھے جنہوں نے مسلمانوں کے زوال کو بھی عروج سے بدل دیا تھا لیکن ان دونوں کے بعد اندلس میں مسلمانوں کے زوال کو روکنا ناممکن ہو گیا۔ خاص طور پر ابو عامر المنصور کی وفات اندلس کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی۔ اس واقعے کے محض 29 برس بعد 1031ء میں اندلس کی اموی سلطنت سازشوں اور آپس کی لڑائیوں اور نفاق کا شکار ہو کر ختم ہو گئی – اس کی جگہ 20 کے قریب چھوٹی بڑی مسلم ریاستیں وجود میں اگئیں جنہیں طائفہ ریاستیں کہا جاتا تھا۔ یہ ریاستیں بہت کمزور تھیں اور عیسائیوں کے مقابلے میں اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتی تھیں-
جاری ہے۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں