حسنین نازش:
قسط-12
میں نے اور زاہد زمان نے2021میں ایتھنز میں اپنے میزبان دوست میاں وقار لادیاں سے درخواست کی تھی کہ ہمیں کسی قریبی ساحلی پٹی کی سیر کراو۔ اگرچہ اس نے ہماری یہ خواہش پوری تو کر دی تھی لیکن وہ چاہتا تھا کہ ہمیں ایک دن یونانی جزیرے ’گیودوس‘ کے سب سے بڑے اور مقبول ساحل کی سیر کراوئے۔ ہم نے اس کی وجہ ہوچھی تو اس نے بتایا تھا:
میں آپ کو اس ساحل کی سنہری ریت میں نصب ایک انتباہی بورڈ پڑھانا چاہتا ہوں جس پر تحریر ہے: ’عریانیت اب ممنوع ہے۔‘”
“کیا مطلب؟ کیا اس سے پہلے وہاں عریانیت ممنوع نہیں تھی؟ یعنی قدرتی لباس ہی میں لوگ غسل آفتاب کا حظ اٹھاتے تھے؟ دوسرا یہ کہ صرف بورڈ پڑھوانا چاہتے تھے؟” میں نے متجسس ہو کر میاں وقار سے جواب چاہا تھا۔
“جی ہاں نازش صاحب! بالکل ایسا ہی تھا۔ بحیرہ لیبیا کے وسط اور کریٹ سے 79کلومیٹر جنوب میں واقع گیودوس یورپ کا سب سے جنوبی ساحل مقام ہے اور یونان میں ان چند جگہوں میں سے ایک تھا جہاں کچھ عرصہ پہلے تک کپڑوں سے ماورا ہو کر تیرنے اور دھوپ سینکنے کی مکمل آزادی تھی۔سنہ 1983 کے یونانی قانون کے مطابق جس میں کبھی نظر ثانی نہیں کی گئی تھی، یونان میں عریاں ریزورٹس میں عریانیت کی سرکاری طور پر اجازت ہے جب کہ ملک میں غیر سرکاری عریاں ساحل اور مل بھی سکتے ہیں- ”
“اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو آزادی گیودوس میں حاصل ہوتی تھی وہ شاید دنیا بھر میں کہیں اور نہیں مل سکتی تھی۔”اس بار زاہد زمان نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا تھا۔
“تیراکی کے علاوہ یہ جزیرہ اپنے ساحلوں پر مفت کیمپنگ کے لیے بھی مشہور تھا جو یونان کی دیگر سیاحتی جگہوں پر ممنوع ہے۔ بے لباس گھومنے پھرنے کے حق کی وجہ سے ہی 1960 کی دہائی سے ہر موسم گرما میں ہزاروں افراد بڑی تعداد میں اس چھوٹے سے جزیرے کا رخ کرتے تھے۔” میاں وقار نے اپنی بات آگے بڑھائی تھی۔
میاں صاحب! کیا اس جزیرے میں بے لباس پھرنے کی آزادی ہی اس جزیرے کی شہرت کا۔باعث بنی؟ ایسے تو کئی مقامات ہوں گے جہاں بے لباس گھوما پھرا جاسکتا ہے۔تیراکی کا جاسکتی ہے۔ فرانس آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں بھی ایسے ساحل (بیچ)موجود ہیں جہاں مادر پدر آزادی ہے۔ نیچرلسٹز مغربی ممالک میں اس مشن پر تنددہی سے اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔”میں نے میاں وقار کی صحافتی اور علمی رگ پر ہاتھ رکھا۔ میرا تیر نشانے پر لگا جب اس نے جواب دیا:
“درست نشاندہی کی نازش صاحب! آپ نےگیودوس جزیرے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ یونانی افسانوی داستان کے مطابق اوگیگیا کا جزیرہ ہے جہاں ہومر کے مطابق اپسرا کیلیپسو نے اوڈیسیئس کو سات سال سے زیادہ عرصے تک قید رکھا اور حکمرانی کی جو اوڈیسیئس کو اپنا شوہر بنانا چاہتی تھی۔یہ باتیں تو افسانوی مگر پرکشش ہیں۔ 1930 کی دہائی میں اس کے دور دراز مقام نے اسے یونانی حکومت کے لیے مبینہ کمیونسٹوں کو جلاوطن کرنے کے لیے ایک مثالی جگہ بنا دیا تھا-ان وجوہات کے سبب بھی یہ جزیرہ بہت معروف ہے۔”میاں وقار نے جواب دیا تھا۔
“میاں صاحب کیا آپ صرف ہمارا دل بہلا رہے ہیں یا پھرآپ نے بھی کبھی بنفس نفیس اس جزیرے کی سیر کی ہے۔” زاہد زمان نے میاں وقار کے دعووں کےافسانوی رنگ نچوڑ کر حقیقی رنگ دیکھنا چاہے۔
“جی ہاں میں، میرے دوست چوہدری مہدی اور محمد طاہر جن دو احباب سے ایتھنز میں آپ کی بھی ملاقات ہوئی تھی، ان کے ہمراہ پاکستانی سیاسی وفود کے ساتھ یہاں دو تین بار آ چکا یوں۔
ہم جزیدہ گیودوس کی دوسری جانب جنوب کی طرف کئی کلومیٹر پیدل سفر کر کے ٹریپتی کے ساحل تک پہنچے تھے جہاں ایک چٹان پر لکڑی کی کرسی کو نصب دیکھا تھا۔ یہ کرسی یورپ کے جنوبی ترین مقام کی نشاندہی کرتی ہے۔
یہ کرسی ان روسی سائنسدانوں نے بنائی تھی جو 1986 میں چرنوبل جوہری تباہی کے بعد جزیرے گیودوس پر آن پہنچے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان سائنسدانوں کو تابکاری کا سامنا کرنا پڑا تھا اور روسی ڈاکٹروں نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ ہر ممکن حد تک صاف ستھرے ماحول میں جار بسیں تاکہ تابکاری کے مضر اثرات کو زاہل کیا جاسکے ۔اس لیے ان سائنسدانوں کا حسن انتخاب یہ جزیرہ بنا تھا۔ یہاں اپنے قیام کے دوران انھوں نے وہ کرسی بنائی اور اسے وہاں نصب کیا تاکہ وہ تازہ ہوا میں بیٹھ کر سانس لے سکیں اور سمندر کی وسعتوں کو دیکھ سکیں۔میں نے اس کرسی کو اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے۔” میاں وقار نے اپنی آنکھیں مٹکائی تھیں۔
“میں ننگے بدنوں یا کسی جوہری سائنسدانوں کی بنائی گئی کرسی کا دیدار کرنے کی بجائے سینتورینو جزیرے کی سیاحت کرنا زیادہ بہترسمجھوں گا۔” زاہد زمان نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا
ایسا اس لیے ممکن نہ ہو سکا کیونکہ اگلے ہی روز ہمیں ایتھینز سے بزریعہ ریاض اسلام آباد لوٹنا تھا۔ اس لیے نہ تو جزیدہ گیودوس کی سیاحت ممکن ہوئی اور نہ ہی سینتورینو جزیرے کی۔ البتہ میاں وقار نے ایتھنز کی ساحلی پٹی کی زیارت ضرور کروادی تھی جسے کسی طور پرہجوم اور ہیجان انگیز بیچ نہیں کہا جاسکتا تھا۔
آج یہ سب اس لیے یاد آیا کہ آج ہمیں بارسلونا کے ساحل پر دنیا کی مشہور اور معروف ترین بیچ کا نظارہ کرنا تھا-
فیصل رحمان نے گاڑی ساحل کے قریب پارکنگ ایریا میں کھڑی کردی۔
اس کے بعد ہم اہستہ اہستہ چلتے ہوئے ساحلی علاقے کی طرف چلنا شروع ہو گئے ۔یہاں دن چڑھ چکا تھا اس لیے سیاحوں کا خوب رش تھا ۔عارضی ڈھابوں اور ریستورانوں سے ہسپانوی موسیقی کی دھنیں پورے ماحول کو سریلا بنا رہی تھیں ۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ٹولیوں کی شکل میں مقامی موسیقار اپنے اپنے آلات موسیقی سے انگریزی افریقی اور خاص کر ہسپانوی دھنیں بکھیر نے میں مصروف تھے۔
آتے جاتے سیاح اپنی جیبوں میں موجود ریزگاری نکال کر ان پر اچھال رہے تھے – معروف دھنوں پر کچھ لوگ ٹولیوں کی شکل میں۔محو رقصاں ہوتے ہوئے بھی نظر آئے ۔
یہاں سے ریت پر چلتے چلتے ہم ساحل کے قریب سے قریب تر ہوتے چلے گئے ۔
بحیرۂ روم کنارے ساحلِ سمندر پر اُچھلتی کودتی لہریں ایک خاص موسیقی کو جنم دے رہی تھیں۔ لہروں کے مدوجزر کے سروں سے بنے گیت نے ساحل پر اوندھے لیٹنے والوں کے لیےلوری کا کام کیا۔ ریت پر تانے خیموں میں سونے والے جدید سہولیات سے آراستہ خواب گاہوں سے کہیں زیادہ گہری نیند کی آغوش میں جا سوئے۔
سورج کی کرنیں بحیرۂ روم کو جس طرح بے نقاب کررہی تھیں میرے جیسے نیم پہاڑی اور سطح مرتفعائی علاقوں میں جنم لینے والے کے لئے اس کی وسعت سے مرعوب ہونے کو کافی تھیں۔
بارسلونا کا یہ ریتلا ساحل، یورپ میں قدرت کی اہم ترین نعمت سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے یورپ کے بحیرۂ روم کنارے ملکوں کے ساحل یورپ کی سیاحت کی صنعت میں اہم ترین شمارکئے جاتے ہیں۔ ہمارے ایسے ترقی پزیر ممالک میں تعطیلات گھروں میں بند ہوکر گزاری جاتی ہیں یا ِزیادہ سے زیادہ ننھیالی یا دادھیالی رشتہ داروں کے گھر میں۔جا کر گزاری جاتی ہیں جبکہ سرد ممالک کے لوگ ریتلے ساحل سمندروں کی جانب یوں امنڈ آتے ہیں کہ لگتا ہے یہاں کوئی بڑی انسانی نقل مکانی ہورہی ہے۔مرد، خواتین، بچے، جوان سب یورپ کی طرح ترکی بھی اُن ممالک میں سرفہرست ہے جہاں لوگ گرمیوں میں تعطیلات منانے کی خاطر سمندروں کی طرف نقل مکانی کرجاتے ہیں۔
ایک جانب ایک ٹولی میں چند پانی لڑکیاں ریت پر بیٹھی نہانے کے لباس کے بجائے اپنے روز مرہ کے لباس میں ملبوس نظر ائیں ۔یہ سب ایک چٹائی میں پر بیٹھی ہوئی تھی اور مختلف قسم کے کھانے ایک دوسرے کو پیش کر رہی تھیں ۔اس سے بہتر پکنک کا بھلا اور کون سا مقام ہو سکتا ہے ۔
کچھ عرصے پہلے تک ہسپانیہ کےساحلوں پر انتہائی باریک اور کم ترین پتلی ڈوری کی گرہ کے ساتھ بنے ہوئے کپڑوں کے جو جنس گراں مایہ کو چھپانے میں قریب قریب ناکام ہوتے تھے پر مکمل پابندی عائد تھی- حد تو دیکھیے کہ خلاف ورزی کرنے والے کو پولیس پکڑ کر لے جایا کرتی تھی ۔بھاری جرمانہ، جیل کی سلاخیں اور کبھی کبھی تو ملک بدری کا پروانہ بھی ہاتھ میں تھما دیا جاتا تھا ۔
پورا یورپ اور وہ قریبی ممالک جہاں گرم ساحل موجود نہیں تھے وہاں کے سیاح عام طور پر ہسپانیہ کے ہی ساحلوں کا رخ کیا کرتے تھے- جب اس قدر سختی ہونے لگی تو گرم ساحکوں کے رسیا سیاحوں نے دوسرے مقامات کا رخ کرنا شروع کر دیا ۔
اس پابندی کے زیر اثر سکنڈ ینیویا اور فرانس کی آزاد منش سیاح خواتین جو اپنے جسم کا زیادہ تر حصہ سہلانے اور سفید سے براؤن کرنے کی خاطر ہسپانیہ اور خاص طور پر بارسالونا کے ساحلوں پر آیا کرتی تھیں اب وہ اٹلی اوریونان یورپ کے ساحلی مقامات کا رخ کرنے لگیں ۔کیونکہ ان مذکورہ ممالک پر کپڑوں کے حوالے سے کسی بھی کمی بیشی کی کوئی پابندی عائد نہ تھی-
چونکہ سیاحت حکومت سپین کا ایک بہت بڑا ذریعہ آمدنی تھا اس لیے مجبور ہو کر حکومت ہسپانیہ کو اس پابندی کو اٹھانا پڑا –
اس وقت غیر ملکی سیاح لڑکیاں صرف دو ڈوریاں نیچے اور دو ڈوریوں اوپر کے مقامات آہ وفغاں پر لٹکا کر کھلے عام ان ساحلوں پر دھوپ سینکتی،اٹھتی بیٹھتی چلتی پھرتی اور لیٹتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔خواتین کو دیکھ کر ہسپانوی اور بدیشی نوجوان بھی اپنی آنکھیں سینکنے بڑی تعداد میں یہاں موجود تھے ۔
جاری ہے…