اردو کی مقبول و معروف ناول و افسانہ نگار بانو قدسیہ ادب کی دنیا کا ایک ناقابل فراموش نام ہیں۔وہ معروف ادیب اشفاق احمد کی اہلیہ تھیں۔دونوں میاں بیوی ادب کے شعبے میں ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے ہیں،ان کی علمی خدمات نصف صدی پر محیط ہیں۔
بانو قدسیہ 18 نومبر 1928ء کو برطانوی ہندوستان میں پنجاب کے شہر فیروز پور میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔ آپ کا پیدائشی نام قدسیہ چٹھہ تھا۔شادی کے بعد اشفاق احمد نےانھیں بانو قدسیہ کا قلمی نام دیا تھا۔
بانو کے والد چوہدری بدر الزمان چٹھہ زراعت کے شعبے میں بیچلر کی ڈگری رکھتے تھے۔وہ گھڑ سواری، ٹینس اور فٹ بال کے عمدہ کھلاڑی تھے۔ بدقسمتی سے بانو قدسیہ ساڑھے تین سال کی عمر میں والد کے سایۂ عاطفت سے محروم ہو گئی تھیں۔بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے ہی میں حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد بانو اپنے خاندان کے ساتھ لاہور منتقل ہو گئیں۔ ان کی والدہ مسز چٹھہ بھی تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ پاکستان منتقل ہونے کے بعد بانو قدسیہ صاحبہ نے کنیرڈ کالج برائے خواتین لاہور سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن کیا۔ بعد ازاں انہوں نے 1951 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔
بانوجب پانچویں کلاس میں تھیں تو سکول میں ڈرامہ فیسٹیول کا انعقاد ہوا جس میں ہر کلاس کو اپنا اپنا ڈرامہ پیش کرنا تھا۔ بہت تلاش کے باوجود بھی کلاس کو تیس منٹ کا کوئی اسکرپٹ دستیاب نہ ہوا۔ چنانچہ کلاس فیلوز اور اساتذہ نے اس مقصد کے لیے بانو قدسیہ کی طرف دیکھا جن کی پڑھنے لکھنے کی عادت کلاس میں سب سے زیادہ تھی۔ ان سے درخواست کی گئی کہ تم یہ ڈرامہ لکھ دو۔ انہوں نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے جتنی بھی اُردو آتی تھی اس ڈرامے میں لکھ دی۔ یہ ان کی پہلی کاوش تھی۔اس ڈرامے کو سکول بھر میں پہلا پرائز ملا۔ اس حوصلہ افزائی کے بعد وہ میٹرک تک افسانے اور ڈرامے ہی لکھتی رہیں تاہم باقاعدہ افسانہ نگاری کا آغاز 1950 میں کیا ۔
ایم اے اُردو کرنے کے دوران اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر ان کا پہلا افسانہ ’’داماندگی شوق‘‘ 1950 میں اس وقت کے ایک سرکردہ ادبی جریدے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔بانو قدسیہ نے 1981 میں ’’ راجہ گدھ ‘‘لکھا جس کا شمار اردو کے مقبول ترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ ان کی کل تصانیف کی تعداد دو درجن سے زیادہ ہے اور ان میں ناول، افسانے، مضامین اور سوانح شامل ہیں۔
راجہ گدھ کے علاوہ بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ اور توجہ کی طالب، قابل ذکر ہیں۔وہ اپنے کالج کے میگزین اور دوسرے رسائل کے لیے بھی لکھتی رہی ہیں۔جبکہ ان کی دیگر تصانیف میں آتش زیر پا،آدھی بات،ایک دن،آسےپاسے،چہارچمن،چھوٹاشہر،بڑے لوگ،دست بستہ،دوسرا قدم،فٹ پاتھ کی گھاس،حاصل گھاٹ،ہوا کے نام،ہجرتوں کے درمیاں،کچھ اور نہیں،لگن اپنی اپنی،مرد ابریشم،موم کی گلیاں،ناقابل ذکر،پیا نام کا دیا،پروا۔پروا اور ایک دن،سامان موجود،شہربے مثال،شہر لازوال آباد ویرانے،سدھراں،سورج مکھی بھی شامل ہیں۔بانو قدسیہ کا پنجابی میں لکھنے کا تجربہ ریڈیو کے زمانے میں ہی ہوا۔ ریڈیو پر انہو ں نے 1965 ء تک لکھا، پھر ٹی وی نے انہیں بہت مصروف کردیا۔ بانو قدسیہ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بہت سے ڈرامے بھی لکھےجنہیںبے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لیے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کئے جن میں ’’ دھوپ جلی ’’ خانہ بدوش ‘‘کلو ‘‘ اور ’’ پیا نام کا دیا‘‘ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ان کے ایک ڈرامے آدھی بات کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔
بانو قدسیہ ایک گھریلو، سیدھی سادھی، مذہبی اقدار کی پابند اور جدید فیشن سے دور ایک گھریلو خاتون خانہ تھیں۔ جن کی شخصیت تو بے شک سادہ تھی اور بظاہر نظر بھی آتی تھی لیکن ان کے افسانوں اور ناولوں میں اسی قدر گہرائی اور رمزیت ہے انھوں نے زندگی کے ہر پہلو کا ، ہر زاویے سے باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور اسے مکمل اور بھرپور طریقے سے اس کی جزئیات کے ساتھ نثر کے قالب میں ڈھالا ہے۔
آپ کی علمی خدمات کی بناء پر آپ کو کئی سرکاری اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں 1983 میں حکومت پاکستان کی جانب سے “ستارہ امتیاز”سے نوازا گیا۔ 2010 میں دوبارہ حکومت پاکستان کی جانب سے “ہلال امتیاز”سے نوازا گیا جبکہ 2012 میں کمال فن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2016 میں انہیں اعزاز حیات (Lifetime Achievement Award) سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انہوں نے کئی ایوارڈز اپنے نام کئے ۔
بانو قدسیہ شدید علالت کے باعث 4 فروری 2017ء کو 88 سال کی عمر میں دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں لیکن اردو ادب میں ان کے خلاء کو کوئی پُر نہیں کر سکتا۔28 نومبر 2020 ء کو، گوگل نے بانو قدسیہ کی 92 ویں سالگرہ پر گوگل ڈوڈل ان کے نام کر کے انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔
![](https://dailyaftab.pk/wp-content/uploads/2025/02/1317428-image-1486243445.jpg)