پاکستانی ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر، بلڈ شوگر اور کولیسٹرول میں اضافہ خصوصی طور پر فالج کے خطرات کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں جب کہ ناقص طرز زندگی اور ورزش سے دوری بھی فالج بڑھنے کے اسباب ہیں۔
ماہرین صحت کا ماننا ہے کہ متحرک زندگی گزارنے، چہل قدمی برقرار رکھنے اور ورزش کو معمول کا حصہ بنانے سے فالج کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے جب کہ اچھی غذا بھی مرض سے دوری میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔نجی تنظیم نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن (NARF) کی جانب سے کراچی پریس کلب میں عالمی یوم فالج کے موقع پر 22 اکتوبر کو آگاہی کیمپ کا انعقاد کیا گیا، جہاں صحافیوں کی فالج کی اسکریننگ کی گئی۔
کیمپ کے دوران 50 کے قریب صحافیوں کی بلڈ شوگر، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول سمیت ہڈیوں کی کمزوری کی اسکریننگ کرکے ان میں فالج کے خطرات کو جانچا گیا۔
کیمپ کے موقع پر ماہر نیورو فزیشن اور نیورو سرجنز نے بتایا کہ بلڈ شوگر، کولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں اضافہ فالج کی بڑی وجہ ہیں جب کہ ناقص طرز زندگی اور غذا بھی فالج کے امکانات کو بڑھانے میں مددگار ہوتی ہیں۔
کیمپ کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال ہزاروں افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے یا تو مر جاتے ہیں یا زندگی بھر معذوری کا سامنا کرتے ہیں ،انہوں نے فالج کی ابتدائی علامات کو پہچاننے اور فوری طبی مدد حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے بتایا کہ فالج کی علامات میں چہرے کے ایک طرف جھک جانا، بازوؤں یا ٹانگوں میں کمزوری اور بولنے میں دشواری شامل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک نے اپنے خطاب کے دوران نشاندہی کی کہ فالج کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی بڑی وجوہات میں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور کولیسٹرول کا بڑھ جانا ہے۔
انہوں نے متوازن غذا کو برقرار رکھنے، جسمانی سرگرمیوں میں مشغول رہنے اور سگریٹ نوشی سے پرہیز کرکے اپنی صحت کا خیال رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔
ڈاکٹر نبیلہ سومرو نے خواتین میں فالج کے بڑھتے ہوئے خطرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہارمونل تبدیلیاں، خاص طور پر حمل اور بعد از پیدائش، فالج کے خطرے کو بڑھا سکتی ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کو اپنی صحت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور حمل کے دوران ڈاکٹروں سے باقاعدہ رابطہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی خطرے کی بروقت نشاندہی کو یقینی بنایا جا سکے۔
ڈاکٹر نبیلہ نے خواتین کو جسمانی طور پر متحرک رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ فالج کے خطرے کو کم کرنے کے لیے باقاعدہ ورزش کو ان کے معمول کا حصہ ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر ثاقب انصاری نے بچوں اور نوجوانوں میں فالج کے بڑھتے ہوئے کیسز کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ فالج صرف بڑوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کم عمر افراد کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
انہوں نے نوجوانوں میں فالج کی بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی وجہ غیر صحت بخش خوراک، موٹاپے اور جسمانی سرگرمی کی کمی کو قرار دیا۔
ڈاکٹر انعام ای خدا نے فالج کے بعد بحالی کے عمل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فالج کے مریضوں کو اپنے معمولات پر واپس آنے کے لیے جلد از جلد بحالی کا علاج شروع کرنا چاہیے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ فالج کے مریضوں کو آزادی حاصل کرنے اور معمول کی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے لیے جسمانی تھراپی اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال ضروری ہے۔