بنگلہ دیش میں پانچ اگست کو عوامی بغاوت کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مختلف سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ’ریاستی اصلاحات‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ایسے میں سب سے پہلے وہ آئین میں ترمیم کا مشورہ دے رہے ہیں۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اس وقت آئین کو از سر نو تحریر کیے بغیر ریاستی اصلاحات ممکن نہیں۔ تجزیہ کار شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دور حکومت کو ’ریاستی اصلاحات‘ کی ایک مثال کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بنگلہ دیش کے آئین نے وزیراعظم یا سربراہ حکومت کو کچھ اختیارات دیے ہیں جن کے ذریعے اس عہدے پر بیٹھے کسی شخص کو بھی ’ڈکٹیٹر بننے‘ کا موقع مل سکتا ہے۔
ایسے میں تجزیہ کار آئینی اصلاحات کے لیے آئین ساز اسمبلی کے قیام کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔
آئین کو ازسرِنو بنانے کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک علی ریاض ہیں، جو ماہر سیاسیات اور امریکہ کی الینوائے سٹیٹ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔
پروفیسر ریاض نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’لوگوں کی خواہش ملک کو آمریت سے نجات دلوانا اور جمہوری نظام قائم کرنا ہے۔ لوگوں کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آئین کو دوبارہ لکھنا پڑے گا۔‘تو کیا آئین کو دوبارہ لکھے بغیر ریاست کے قوانین میں ترمیم یا اصلاحات ممکن نہیں؟
کچھ لوگ اس ضمن میں سنہ 2007 میں فوجی حمایت یافتہ نگران حکومت کے دوران اصلاحات کی مثال دیتے ہیں۔
لیکن بہت سے لوگوں کا اس بارے میں خیال ہے کہ آئین میں ترمیم یا قانون میں اصلاحات کر کے بھی آمریت کو روکنا ممکن نہیں لیکن اس بارے میں جوابی دلائل بھی ہیں۔بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ پانچ اگست کو عوامی بغاوت کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا لیکن نیا ملک نہیں بن سکا۔ اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ آئین کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے،آئینی ماہر شاہدین ملک نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’موجودہ آئین سے ہی بحران کا حل ممکن ہے۔