بورا بورا رقصِ پیری(سفرنامہ سپین)

حسنین نازشؔ:
قسط.22
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب 2020ء میں میں اور زاہد زمان قریشی یورپ یاترا کے لیے نکلے تو جب پہلے دن ہم جرمنی کے شہر میونخ پہنچے تو اس وقت رات کے دس بجے ہوں گے- ہمیں بس سٹیشن سے دس منٹ کی پیدل مسافت پر لوکل بس پکڑ کر اپنے ہوٹل جانا تھا ،جس کی پیشگی بکنگ ہمارے دوست فیصل رحمان پہلے ہی کرواچکے تھے۔ میونخ شہر کے مرکزی بس سٹیشن سے چلتے ہوئے بس کے لوکل سٹاپ کی جانب جاتے ہوئے راستے میں ایک کلب پڑا۔ہم دونوں نے چاہا کہ چلو ہوٹل جانے سے پہلے کیوں نہ اس کلب میں جا کر رقص و سرور کی محفل کو اپنی آنکھوں سے داد دیں۔ لیکن جب ہم نے اس کلب کے مرکزی دروازے پر کھڑے گاڈ سے داخلے کی اجازت چاہی تو سیکیورٹی گارڈ نے ہم دونوں کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا تھا: ”معذرت! یہ پرائیویٹ پارٹی ہے۔ آپ یہاں داخل نہیں ہو سکتے-“
اپناسا منہ لے کرمیں اور زاہد دونوں بس سٹاپ کی طرف چلے گئے تھے۔ بس پکڑ کر ہم اپنے ہوٹل میں چلے گئے تھے۔ شب بصری کا جب وقت آیا تو آدھی رات کو زاہد کے خراٹوں نے مجھے سونے نہیں دیا- میں نے بہتیرکوشش کی لیکن میری تکان اور نیند کے سامنے زاہد کے زوردار خراٹے فاتح ٹھہرے۔ نیند کوسوں دور تھی۔جب ساری کوششیں ناکام ہو گئیں تو بالآخررات کو تقریبا َاڑھائی بجے کے قریب میں اپنے ہوٹل سے نکلا اور میونخ کے سٹی سینٹر میں مٹر گشت کر نے اور میونخ کی شبینہ محافل کا حصہ بن کر رات گزارنے کی ٹھانی تھی۔
رات خیر کیا بسر کرنی تھی؟بات یہ تھی کہ ایک سیّاح کو دو چیزوں سے جس قدر ممکن ہو احترااز کرنا چاہیے- ایک تو نیند اور دوسرا بھوک جس قدر آپ ان دو نوں پر قابو پائیں گے اسی قدر آپ زیادہ سے زیادہ سیاحت کا لطف اٹھائیں گے- تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ جگہوں کو دیکھ سکیں گے۔
مجھے وہ شب یاد ہے کہ اس رات میں شلوار قمیض پہنے ہوئے تھا۔
میں نے اس رات سوچا کہ کیوں ناں اس وقت کسی کلب چلوں۔ آخر کیوں نہ ہو بھلے سے میں ایک مسلمان ہوں۔ تھوڑا بہت مذہبی بھی ہوں اور مذہب پر عمل پیرا ہونے کو اچھا سمجھتا ہوں لیکن دوسری طرف جوان سال بھی تو تھا۔ میرے سینے میں بھی دل جوان تھا چنانچہ میں نے چھ سات شبینہ کلبوں میں جانے بلکہ گھسنے کی باقاعدہ کوشش کی مگر کسی بھی سیکیورٹی گاڈ نے مجھے اپنے کلب میں داخل نہ ہونے دیااوربڑی شائستگی سے مجھے اگلے کلب کی طرف جانے کا اشارہ کیا گیا تھا اور ان کی تو کوشش تھی کہ مجھے وہاں جا کر چھوڑ کے آتے کہ مبادا واپس آجاؤں پھر سے منت درباں کرنے۔ مجھے ان کی شرارتی آنکھوں سے پتہ چل رہا تھا کہ بھائی یہاں تمہاری دال نہیں گلی تو یقین کرو آگے بھی نہیں گلے گی۔
ساتویں کلب کے باہر ایک سیاہ فام نیم برہنہ رقاصہ نے مجھے اپنی جانب مائل کر کے کلب آنے کی پیشکش کی۔ یقین مانیے کہ آدھا درجن مقام آہ وفغاں سے ٹھکرائے جانے کے بعد کسی ساتویں مقام پر اگر کوئی بھی خاتون آپ کو اس انداز سے مدعو کرے گی توآاپ جھٹ سے منہ بولی قیمت ادا کر کے اس طرح کی دعوت کو قبول کر لیں گے۔ اس لیے میں نے بھی یہ دعوت قبول کر لی تھی۔ سات یورو میں نے ادا کیے تھے جس میں ایک یورو کی مجھے انہوں نے ایسی ڈرنک تھمائی جس کو اس سے پہلے کبھی میں نے کبھی ہاتھ لگایا تھا اور نہ ہی کبھی پیا تھا۔ یہ وہی مشروب تھا کہ جس کو پینے کے بعد کہا جاتا تھا کہ ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے۔
اس رات کو نہ تو میرا کچھ پینے کا ارادہ تھا اور نہ ہی ہنگامہ برپا ہونے کے بعد اس کا حصہ بننے کی سکت تھی۔ جام و ساغر لاکر میری میز پر رکھ دیا گیا تھا اور مجھے ساکت اور جامد حالت میں بٹھا دیا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کے ا ٓپ نے اپنی کرسی سے اٹھنا نہیں ہے۔ تھوڑے دیر کے بعد جب میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو مجھے محسوس ہوا کہ سارے شبینہ کلب میں اس وقت صرف اور صرف میں اکیلا تماشائی ہوں۔ تھوڑی دیر بعد وہی سیاہ فارم خاتون جس نے مجھے دروازے پہ خیر مقدم کیا تھا اور مجھے مدعو کر کے کلب کے اندر لائی تھی۔وہ کلب کے اگواڑے کی طرف جاتے ہوئے چبوترے میں پیوست ایک بڑے سے پول پر لہرانا شروع ہو گئی۔ تیز پاپ موسیقی کے سُرکے ساتھ اس کا جسم تھرکتا چلا جا رہا تھا اور اس کے نیم برہنہ جسم کا ایک ایک انگ نظر آ رہا تھا۔
ڈانس کلب کا میرا یہ پہلا تجربہ تھا جو میونخ کی اس رات میرے ساتھ پیش آیا۔میں بیٹھا سوچتا رہا کہ آ خر وہ کیا وجوہات تھیں جن کے سبب اس سے پہلے کے چھ سات کلبوں نے مجھے داخلے کی اجازت ہی نہیں دی۔ان سوالات کے جواب کے لیے اس کلب کے استقبالیہ پر کھڑی لڑکی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اکثر کلب شلوار ا ور قمیض والوں کوکلب میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔گاہک نہ ہونے کے سبب ہم نے آپ کو مدعو کر لیا وگرنہ آپ کو ہم بھی داخل نہ ہونے دیتے۔وجہ پوچھی توبتایا کہ ایسا لباس پہننے والے انڈین کلب کا ماحول خراب کرتے ہیں۔اس لیے ایسوں کو کلب میں داخل ہونے منع ہی کیا جاتا ہے۔
آج یہ ساری کہانی مجھے اس لیے یاد آئی کیونکہ آج بھی میں اور عاصم شکور دونوں مورسیہ کے نائٹ کلبو ں کی رنگینو ں کا لطف اٹھا نے کی غرض سے گھومنے پھرنے لگے۔ یہاں بھی دو چار کلبوں کے در ہمارے لیے مقفل تھے۔ عاصم نے ازرائے مذاق مجھے بتایا کہ حسنین بھائی! ہماری عمریں چو نکہ چالیس کے پیٹے میں ہیں اس لیے ہمیں کلب میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔بعد میں علم ہوا کہ عاصم کی خواہش تھی کہ مجھے کسی ایسے کلب م لے جائے جہاں نہ تو شراب ہو اور نہ ہی شباب ہو بلکہ ایک اس طرح کا کوئی کلب ہو جہاں صرف موسیقی ہو اور روایتی ہسپانوی رقص ہو۔ جہا ں نہ تو جسم کا سودا ہوتا ہو نہ جنس کا سودا ہو نہ ہی تو وہاں شراب کے چھینٹوں سے دامن کوتر کیا جاتا ہو اور نہ ہی وہاں چھرکتے ہوئے بدنوں پر روپے لٹائے جاتے ہوں۔
عاصم میری طبیعت سے واقف تھا اور وہ خود بھی شریف النفس آدمی تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ میں مورسیہ سے سوکھی سوکھی یادیں لے کر جاؤں بلکہ ٓاج میری مُورسیہ میں آخری شب تھی تو کیوں نا ں ایک رقص کی محفل ہو کہ جہاں میں اپنے جسم اپنی جان اپنی روح میں مُروسیہ کے اچھے تاثرات لے کر جاؤں۔
میری تو خواہش تھی کہ فلیمنگو رقص اگر دیکھنے کو مل جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔لیکن آج کی رات یہاں دائیں بائیں کسی جگہ اس خاص قسم کا رقص نہیں ہو رہا تھا البتہ جان کارلوس ایونیو مورسیہ میں زک زیک کلب میں بورا بورا قسم کا ہسپانوی رقص مزکورہ شرائط پوری کر رہا تھا۔
میں نے عاصم سے ہوچھا یہ بورا بورا موسیقی کیا ہے تو وہ بولا:
”بورا بورا موسیقی میں روایتی ہسپانوی گانے اور رقص کے ساتھ عصری موسیقی اور معروف ڈی جے”جی مورے“کی تخلیق کردہ موسیقی کا ایک
حسین امتزاج شامل ہوتا ہے۔ آپ یوں سجھیے کہ بورا بورا کی موسیقی اور رقص جنوبی امریکہ کے چند علاقوں کی ثقافت کا اہم ترین حصہ ہے۔ بورا بورا کی موسیقی میں پاہو ڈرم اور ٹورے نام کے آلات موسیقی قابل ذکر ہیں جو اکثر روایتی ہسپانوی رقص کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ بورا بورا گاناجسے ”ٹیارے تاہیٹی“ بھی کہا جاتا ہے، ایک روایتی گانا ہے جو جنوبی امریکہ کے جزیروں کا ثقافتی مظہر ہے۔ اس لیے میں آپ جیسے اپنے مہمانوں کو اگر رقص کا کوئی جشن یا محفل دکھانی مقصود ہو تو بورو بورا کی محفل کا متلاشی ہوتا ہوجاتا ہوں۔“
ہم دونوں پیدل ہی چلتے چلتے بالآخر جان کارلوس ایونیو کی طرف بڑھنے لگے جس کے ایک چوک میں زک زیگ میوزیکا نام کاکلب بورابورا گیت ا ورقص کی میزبانی کرنے والا تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں