تین سوال ( لیو ٹالسٹائی کے قلم سے سبق آموز افسانہ)

ایک مرتبہ ایک بادشاہ کو خیال آیا کہ اگر وہ ہمیشہ ہر چیز کو شروع کرنے کا صحیح وقت جان لے ؛ اگر وہ یہ جان لے کہ کون سے لوگوں کی باتوں کو سنا جانا چاہئے ،اور کن سے بچنا چاہئے۔ اور، سب سے بڑھ کر، اگر وہ ہمیشہ یہ جان لے کہ سب سے اہم کام کیا ہے، تو وہ کبھی بھی کسی بھی کام میں ناکام نہیں ہو گا۔
یہ خیال آتے ہی اس نے اپنی سلطنت میں اعلان کروا دیا کہ جو شخص اسے سکھائے گا کہ کسی بھی کام کا صحیح وقت کیا ہے؟ سب سے ضروری کون لوگ ہیں؟ اور وہ کیسے جان سکتا ہے کہ سب سے اہم کام کیا ہے؟ تو وہ اسے انعام و اکرام سے نوازے گا۔
اعلان ہوتے ہی بادشاہ کے محل میں ذہین اور دانا افراد کا تانتا بندھ گیا۔ سب دربار میں آتے ، بادشاہ کے ان سوالوں کے جواب دیتے۔ لیکن سبھی نے اس کے سوالوں کا الگ الگ جواب دیا۔
پہلے سوال کے جواب میں بعض نے کہا کہ ہر کام کا صحیح وقت جاننے کیلئے پہلے سے دنوں، مہینوں اور برسوں کی جدول تیار کرلینی چاہئے اور اس کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔ صرف اسی طرح سب کچھ مناسب وقت پر کیا جا سکتا ہے۔ بعض نے کہا کہ ہر کام کیلئے صحیح وقت کا پہلے سے فیصلہ کرنا ناممکن ہے، لیکن اپنے آپ کو بیکار مشاغل میں مصروف نہ کرتے ہوئے، جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر ہمیشہ توجہ دینی چاہئے، اور پھر وہی کرنا چاہئے جو سب سے زیادہ ضروری ہے۔ متعدد نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر بادشاہ کی خواہ کتنی ہی توجہ کیوں نہ ہو، ایک آدمی کیلئے ہر کام کیلئے صحیح وقت کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے، لیکن اس کے پاس دانشمندوں کی ایک ٹیم ہونی چاہئے جو فیصلہ کرنے میں اس کی مدد کرے۔ لیکن پھر کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کسی کونسل کے سامنے رکھے جانے کا انتظار نہیں کر سکتیں۔ لیکن اس کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ کیا ہونے والا ہے۔ اور کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں صرف جادوگر ہی بتاسکتے ہیں۔ چنانچہ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ ہر کام کو انجام دینے کا صحیح وقت جاننے کیلئے جادوگروں سے مشورہ کرنا چاہئے۔
دوسرے سوال کے جوابات بھی اتنے ہی مختلف تھے۔ بعض نے کہا کہ بادشاہ کو جن لوگوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ اس کے کونسلر ہیں۔ کچھ نے کہا پادری؛ کچھ نے کہا ڈاکٹر؛ جبکہ کچھ نے کہا سپاہی سب سے زیادہ ضروری ہیں۔
تیسرے سوال کے جواب میں کہ سب سے اہم کام کون سا ہے، کچھ نے جواب دیا کہ دنیا میں سب سے اہم چیز سائنس ہے۔ بعض نے کہا کہ جنگ میں مہارت جبکہ متعدد نے مذہبی عبادت کو اہم ترین کام قرار دیا۔
محل میں آنے والے تمام دانشوروں کے جوابات مختلف ہونے کی وجہ سے بادشاہ نے ان میں سے کسی سے اتفاق نہیں کیا اور کسی کو بھی انعام سے نہیں نوازا۔
لیکن ان سوالوں کے صحیح جواب جاننے کی تمنا اس کے دل میں تھی۔ لہٰذا اس نے ایک راہب (پادری) سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا، جو اپنی دانائی کیلئے دور دور تک مشہور تھا۔ پادری جنگل میں رہتا تھا اور صرف عام لوگوں ہی سے ملاقات کرتا تھا۔ چنانچہ بادشاہ نے سادہ لباس زیب تن کیا۔ اس کی جھوپڑی سے کئی میل پہلے ہی اپنے گھوڑے سے اترگیا اور پیدل چلتا ہوا پادری کے حجرے تک پہنچ گیا۔
جب بادشاہ، دانا پادری کے پاس پہنچا تو وہ اپنی جھوپڑی کے سامنے زمین کھود رہا تھا۔ بادشاہ کو دیکھ کر اس نے سلام کیا مگر کھدائی کے عمل میں مصروف رہا۔ پادری بہت کمزور تھا۔ وہ جب بھی کدال اٹھا کر زمین پر مارتا، اس کا سانس پھول جاتا۔
بادشاہ اس کے پاس گیا اور کہنے لگا: ’’میں آپ کے پاس اپنے تین سوالوں کا جواب مانگنے کیلئے آیا ہوں۔ سوال یہ ہیں: میں صحیح وقت پر صحیح کام کرنا کیسے سیکھ سکتا ہوں؟ کون سے لوگوں کی مجھے سب سے زیادہ ضرورت ہے؟ اور، کون سے معاملات سب سے اہم ہیں؟‘‘
پادری نے بادشاہ کی بات سنی، لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے دوبارہ زمین کھودنا شروع کردی۔
تھوڑی دیر بعد بادشاہ نے کہا، ’’آپ تھک گئے ہیں، کدال مجھے دے دیجئے ۔‘‘
’’شکریہ!‘‘ پادری نے کہا، اور بادشاہ کو کدال دیتے ہوئے پاس ہی زمین پر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر کھدائی کرنے کے بعد بادشاہ نے اپنے سوال دہرائے۔ پادری نے پھر کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اٹھا، اور کدال کیلئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہنا لگا: ’’اب تھوڑی دیر تم آرام کرو، اور مجھے کام کرنے دو۔‘‘
لیکن بادشاہ نے اسے کدال نہ دی اور کھدائی جاری رکھی۔ ایک گھنٹہ گزر گیا، پھر دو گھنٹہ……
سورج درختوں کے پیچھے ڈوبنے لگا اور بادشاہ نے آخر کار کدال زمین پر پھینک دی اور کہا:
’’عقلمند شخص! میں آپ کے پاس اپنے سوالوں کے جواب کیلئے آیا ہوں۔ اگر آپ کو جواب نہیں معلوم ہے تو مجھے بتادیجئے تاکہ میں لوٹ جاؤں۔‘‘
’’سامنے سے کوئی آرہا ہے،‘‘ پادری نے کہا۔ ’’چلو دیکھتے ہیں یہ کون ہے۔‘‘
بادشاہ نے مڑ کر دیکھا تو ایک ڈاڑھی والا آدمی جنگل سے بھاگتا ہوا آرہا تھا۔ وہ آدمی اپنے ہاتھ سے اپنا پیٹ دبائے ہوئے تھا جہاں سے خون بہہ رہا تھا۔ بادشاہ کے پاس پہنچ کر وہ بے دم ہوکر گرپڑا۔
بادشاہ اور پادری نے فوری طور پر اس کا کرتہ نکالا۔ اس کے پیٹ پرایک بڑا زخم تھا۔ بادشاہ نے جلدی جلدی اسے دھویا، اور اپنے رومال اور ایک تولیہ سے پٹی باندھ دی ۔ لیکن خون بہنا بند نہ ہوا۔ بادشاہ بار بار خون کو بہنے سے روکنے کیلئے تولیہ کو صاف کرتا اور پھر زخم پر رکھ دیتا۔ کچھ دیر بعد جب خون بہنا بند ہو گیا تو اس شخص کے حواس ٹھکانے آئے اور اس نے پانی طلب کیا۔ بادشاہ نے اسے پانی پلایا۔ اس دوران سورج غروب ہو چکا تھا، اور موسم سرد ہوگیا تھا۔ چنانچہ بادشاہ نے پادری کی مدد سے زخمی آدمی کو جھوپڑی میں لے جا کر بستر پر لٹا دیا۔ زخمی شخص نے آنکھیں بند کر لیں اور خاموش رہا۔ بادشاہ ان کاموں سے اتنا تھک گیا تھا کہ دہلیز سے ٹیک لگا کر سوگیا۔ اسے اتنی اچھی نیند کبھی نہیں آئی تھی۔
صبح جب وہ بیدار ہوا تو اسے یہ یاد آنے میں کافی وقت لگ گیا کہ وہ کہاں ہے یا وہ عجیب سی ڈاڑھی والا شخص کون ہے جو بستر پر لیٹا ہوا ہے اور اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے اسے غور سے دیکھ رہا ہے۔
’’مجھے معاف کردیجئے!‘‘ ڈاڑھی والے نے کمزور آواز میں اس وقت کہا جب اس نے دیکھا کہ بادشاہ جاگ گیا ہے اور اسے ہی دیکھ رہا ہے۔
بادشاہ نے کہا،’’میں تمہیں نہیں جانتا، اس لئے مجھ سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’آپ مجھے نہیں جانتے مگر میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں آپ کا وہ دشمن ہوں جس نے آپ سے بدلہ لینے کی قسم کھائی تھی کیونکہ آپ نے اس کے بھائی کو قتل کر دیا تھا اور اس کی جائیداد پر قبضہ کرلیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ آپ اکیلے ہی پادری سے ملنے آئے ہیں، اور تبھی میں نے فیصلہ کیا کہ واپسی میں آپ کاقتل کردوں گا۔ لیکن دن گزر گیا اور آپ واپس نہیں آئے۔ چنانچہ میں نے آپ کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ راستے میں آپ کے محافظوں نے مجھے پہچان لیا اور زخمی کر دیا۔ میں کسی طرح بچ کر بھاگ نکلا لیکن اگر آپ میرے زخم پر مرہم نہ لگاتے تو میں یقیناً مرجاتا۔ میں آپ کو مارنا چاہتا تھا، اور آپ نے میری جان بچائی۔ اب، اگر میں زندہ رہا، اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے سب سے وفادار غلام کے طور پر آپ کی زندگی بھر خدمت کروں گا، اور اپنے بیٹوں کو بھی ایسا کرنے کا حکم دوں گا۔ مجھے معاف کردیجئے!‘‘
بادشاہ کو بہت خوشی ہوئی کہ اس نے اپنے دشمن سے اتنی آسانی سے صلح کر لی اور اسے دوست بنا لیا ہے۔ اس نے نہ صرف اسے معاف کر دیا بلکہ کہا کہ وہ نوکروں اور طبیب کو اس کی خدمت کیلئے بھیجے گا، اور اس کی جائیداد بھی اسے لوٹا دے گا۔
پھر بادشاہ برآمدے میں آگیا اور چاروں جانب متلاشی نظروں سے دیکھنے لگا۔ یہاں سے جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر ان سوالوں کا جواب چاہتا تھا ۔
پادری کل کھودی ہوئی زمین کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا بیج بورہا تھا۔
بادشاہ اس کے پاس آکر کہنے لگا ’’مَیں آخری بارالتجا کرتا ہوں کہ میرے سوالوں کا جواب دے دیجئے۔‘‘
’’تمہیں تینوں سوال کا جواب مل چکا ہے!‘‘ پادری نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیسا جواب؟ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘ بادشاہ تذبذب کا شکار ہوگیا۔
پادری نے جواب دیا:
’’اگر تم نے کل میری کمزوری پر ترس نہ کھایا ہوتا اور میرے لئے یہ زمین نہ کھودتے بلکہ اپنی راہ لیتے تو وہ شخص تم پر حملہ کر دیتا اور پھر تمہیں اس بات کا افسوس ہوتا کہ کاش تم میرے پاس ہی رُک جاتے۔ لہٰذا سب سے اہم وقت وہ تھا، جب تم زمین کھود رہے تھے۔ اور میں سب سے اہم آدمی تھا۔ میرے لئے کچھ اچھا کرنا تمہارے لئے سب سے ضروری کام تھا۔ اس کے بعد جب وہ شخص ہماری طرف بھاگتے ہوئے آیا تو سب سے اہم وقت وہ تھا، جب تم اس کی دیکھ بھال کررہے تھے کیونکہ اگر تم اس کے زخموں پر مرہم نہ رکھتے تو وہ تم سے صلح کئے بغیر ہی مر جاتا۔ تو اس وقت وہ سب سے اہم آدمی تھا، اور تم نے اس کیلئے جو کچھ کیا وہ تمہارے لئے سب سے ضروری کام تھا۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھو: سب سے اہم وقت ’’اب‘‘ ہے۔ اِس وقت میں ہمارے پاس طاقت ہے۔ سب سے زیادہ ضروری شخص وہ ہے جس کے ساتھ تم اِس وقت میں ہو، کیونکہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کبھی کسی اور کے ساتھ کوئی معاملہ کرے گا یا نہیں۔ اور تمہیںسب سے اہم معاملہ اسی شخص کے ساتھ کرنا چاہئے کیونکہ صرف اسی مقصد کیلئے اس انسان کو تمہاری زندگی میں بھیجا گیا ہے۔‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں