قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کے حوالے سے آئینی ترمیم پیش کیے جانے کی افواہیں گرم ہیں جہاں حکومت نے ترمیم کی منظوری کے لیے درکار اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس آج شام صرف ایک گھنٹے کے وقفے کے ساتھ طلب کیے گئے ہیں، پارلیمنٹ کا ہفتے کے آخر میں اجلاس بلانا غیر معمولی ہے کیونکہ عام طور پر بجٹ سیشن یا کسی حساس مسئلے کے لیے اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔اگرچہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے باضابطہ طور پر جاری کیے گئے ایجنڈے میں ترمیم کا کوئی ذکر شامل نہیں ہے، لیکن اس طرح کی چیزیں عام طور پر ایک ضمنی ایجنڈے کے حصے کے طور پر ایوان کے سامنے رکھی جاتی ہیں۔
ہفتے کو خصوصی اجلاس بلا کر جمعے کے روز والا ایجنڈہ ہی جاری کیا گیا ہے جہاں ایجنڈے میں آئی پی پیز کو کیپسٹی پیمنٹ ادائیگیوں سے متعلق ایم کیو ایم کا توجہ دلاؤ نوٹس شامل ہے جبکہ اس کے علاوہ ایجنڈے میں پاکستان ترقی معدنیات کارپوریشن کی مجوزہ نجکاری سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس بھی شامل ہے۔حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے اپنے اراکین کو وفاقی دارالحکومت میں ہی رہنے کی ہدایت کررکھی ہیں تاکہ قانون سازی کے لیے دونوں ایوانوں میں ان کی موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے۔
پیپلزپارٹی کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پی پی پی کی ایم این اے نفیسہ شاہ جمعہ کو اپنے والد سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی سالگرہ منانے کے لیے اپنے آبائی شہر جانا چاہتی تھیں، لیکن انہیں وفاق سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور اس حوالے سے قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
وزیراعظم کے مشیر وزارت قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے گزشتہ روز یہ دعویٰ کیا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق بل آج (ہفتہ) کو پیش کیا جائے گا، میرے خیال میں اسے پہلے سینیٹ اور پھر قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا حکومت کو قانون سازوں کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اپنا ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد دونوں ایوانوں کو اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی بل کی منظوری سے مستفید ہوں گے، بیرسٹر عقیل نے کہا کہ جب کوئی قانون سازی آئین کا حصہ بن جاتی ہے تو اس کا اطلاق تمام متعلقہ افراد پر ہوتا ہے، تاہم ان کی حالیہ وضاحت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قانون میں کسی ایک شخص کے لیے تبدیلی میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے آن بورڈ تھے۔حکمران اتحاد کے پاس آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے مطلوبہ تعداد کے حوالے سے یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا ان کے نمبر گیم پورے ہیں یا نہیں، آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی ارکان اسمبلی کی منظوری درکار ہے، یعنی 336 کے ایون میں سے تقریباً 224 ووٹ درکار ہیں، تاہم ابھی تک ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں کم از کم ایک درجن ووٹوں کی کمی ہے۔
تاہم حکومتی ذرائع نے آئینی ترمیم کے لیے نمبرز پورے ہونے کا دعویٰ کیا ہے تاہم آئنی ترمیم پیش کیے جانے کے حوالے سے حکومتی رہنماؤں کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ کی راہداری میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئینی ترامیم پیش کریں گے اور ہمارے پاس آئینی ترمیم کے لیے نمبر پورے ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب وزیر قانون نے کل کوئی بھی آئینی ترمیم نہ لانے کا دعویٰ کردیا جبکہ نائب وزیر اعظم نے بھی اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کردیا۔پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں وزیر قانون نے کہاکہ حکومت کل کوئی آئینی ترمیم نہیں لا رہی۔
آئینی ترمیم پیش کیے جانے کے حوالے سے سوال پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فی الحال جو اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کا مسئلہ پڑا ہوا ہے اس پربات چیت ہورہی ہے۔اس بارے میں جب نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہاکہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں۔اس بارے میں جب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر ججوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرنی ہے تو پھر یہ کسی ایک جماعت کا فیصلہ نہیں ہو سکتا بلکہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی طے کرے گی کہ اس حوالے سے کیا کرنا ہے۔
تاہم اہم حکومتی اراکین کی تردید کے باوجود باوثوق ذرائع نے دعویٰ کیا کہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں ججز کی مدت ملازت میں توسیع کے حوالے سے آئینی ترمیم پیش کی جائے گی اور اس حوالے سے حکومت کے نمبر بھی پورے ہیں۔دو تہائی اکثریت کے لیے قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 63 ارکان کے ووٹ درکار ہوتے ہیں۔