حکومت سے مذاکرات کا تیسرا دور ختم، پی ٹی آئی کا 2 انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ

اسلام آباد: حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور میں پی ٹی آئی نے 2 انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ کر دیا۔حکومت اور تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس ایک گھنٹہ 40 منٹ جاری رہا، اجلاس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کی جس میں پی ٹی آئی نے تحریری طور پر اپنے مطالبات کا مسودہ پیش کر دیا۔
حکومتی کمیٹی میں عرفان صدیقی، رانا ثنا اللہ، خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار شامل تھے جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے عمر ایوب، اسد قیصر، علی امین گنڈا پور، علامہ راجہ ناصر عباس اور صاحبزادہ حامد رضا کمیٹی کا حصہ تھے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے حکومت سے مذاکرات کیلئے مطالبات کا ڈرافٹ تیار کیا اور اپوزیشن لیڈر عمرایوب کے لیٹر پیڈ پر ڈرافٹ تیار کیا گیا، پی ٹی آئی کے مطالباتی ڈرافٹ تین صفحات پر مشتمل ہیں۔
چارٹر آف ڈیمانڈ 2 نکات اور 3 صفحات پر مشتمل ہے، عمر ایوب نے تحریری مطالبات کا ڈرافٹ سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے رکھا، اپوزیشن لیڈر نے تحریری مطالبات کمیٹی اجلاس میں پڑھ کر بھی سنائے۔

پی ٹی آئی کے تحریری مطالبات
متن کے مطابق تحریک انصاف کا حکومت سے کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا، اس کے علاوہ اس میں کہا گیا کہ حکومت دو الگ الگ کمیشن بنائے،دونوں کمیشن چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کے 3 حاضر سروس ججز پر مشتمل ہوں گے، حکومت 7 روز کے اندر کمیشن قائم کرے، دونوں کمیشن کی کاروائی عام لوگوں اور میڈیا کے لیے اوپن رکھی جائے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ 9 مئی کمیشن تحقیقات کرے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی گرفتاری کے حالات کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کمیشن گرفتاری کے طریقہ کار کی قانونی حیثیت اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں رینجرز اور پولیس کے داخلے کے ذمہ دار افراد کا تعین کرے۔
کمیشن عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پیش آنے والے واقعات خاص طور پر ان حالات کی تحقیقات جن میں افراد کے گروپس حساس مقامات تک پہنچے، کمیشن حساس مقامات کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگز کا جائزہ لے، کمیشن اگر سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب نہیں تو اس کی عدم دستیابی کی وجوہات کا تعین کرے۔
کمیشن 9 مئی کے واقعات کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے افراد کو کس طریقے سے حراست میں لیا گیا اور انہیں کس حالت میں رکھا گیا؟ اس کا جائزہ لے اور کمیشن جائزہ لے کہ ان کی رہائی کے حالات کیا تھے؟ کیا ان افراد کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی، بشمول تشدد؟ گرفتار ہونے والے افراد کی فہرستیں کیسے تیار کی گئیں؟
کمیشن تحقیقات کرے کیا 9 مئی 2023 کے حوالے سے کسی ایک فرد کے خلاف متعدد ایف آئی آرز درج کی گئیں اور قانون کے عمل کا غلط استعمال کرتے ہوئے مسلسل گرفتاریاں کی گئیں؟
کمیشن میڈیا کی سنسرشپ اور اس واقعات سے متعلق رپورٹنگ پر پابندیوں اور صحافیوں نے کو حراساں کرنے کے واقعات کا جائزہ لے، کمیشن حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش کے نفاذ کی قانونی حیثیت اور اس کے اثرات کا بھی جائزہ لے اور انٹرنیٹ بندش اس سے پہلے، دوران اور بعد کے حالات میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے۔
متن کے مطابق مزید مطالبہ کیا گیا کہ 26 نومبر کمیشن 24 سے 27 نومبر کو اسلام آباد میں پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات کرے، کمیشن تحقیقات کرے کیا اسلام آباد میں مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں یا دیگر جسمانی تشدد کیا گیا؟ اگر ایسا ہوا تو مظاہرین پر گولیاں چلانے اور تشدد کا حکم کس نے دیا؟ تعین کیا جائے کہ طاقت کا استعمال حد سے زیادہ تھا؟ اگر ہاں تو اس کے ذمہ دار کون تھے؟ کمیشن تحقیقات کرے 24 سے 27 نومبر کے بعد شہداء اور زخمیوں کی تعداد اور لاپتہ ہونے والے افراد کی تفصیلات کیا ہیں؟
اس میں مزید کہا گیا کہ کمیشن 24 سے 27 نومبر کے دوران اسلام آباد کے مختلف ہسپتالوں اور طبی مراکز میں سی سی ٹی وی ریکارڈنگ کی حالت کیا تھی؟ کمیشن جائزہ لے کیا ہسپتالوں اور دیگر طبی مراکز کے ریکارڈ میں رد و بدل کیا گیا؟ اگر ہاں تو یہ کس کے حکم پر اور کن ہدایات کے تحت کیا گیا؟ کیا ہسپتالوں کو اموات اور زخمیوں کی معلومات جاری کرنے سے روکا گیا؟ کمیشن بلیو ایریا، اسلام آباد میں چائنہ چوک سے ڈی چوک تک مختلف مقامات پر ریکارڈ کی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کی حالت کا جائزہ لے۔
مسودے میں کہا گیا کہ 24 سے 27 نومبر کے واقعات کے حوالے سے ایف آئی آر درج کرانے اور دیگر قانونی کارروائی کے لیے درخواست دینے والوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ پی ٹی آئی وفاقی حکومت، پنجاب، سندھ، اور بلوچستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قانون کے مطابق تمام سیاسی قیدیوں کی ضمانت یا ان کی سزا کے معطل کرنے کے احکامات کی حمایت کریں۔
اس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی ان تمام سیاسی قیدیوں کی ضمانت یا ان کی سزا معطل کرنے کے احکامات کے لیے وفاقی حکومت، پنجاب، سندھ، اور بلوچستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے، جنہیں 9 مئی 2023 کے کسی بھی واقعے، 24 سے 27 نومبر 2024 کے کسی واقعے، یا کسی اور سیاسی سرگرمی کے سلسلے میں درج کی گئی ایک یا ایک سے زائد ایف آئی آرز کے تحت گرفتار کیا گیا ہو یا جنہیں سزا دی گئی ہو، جن کی اپیلیں یا نظرثانی درخواستیں اس وقت کسی عدالت میں زیر سماعت ہوں۔
متن کے مطابق اس چارٹر میں تجویز کردہ دونوں کمیشنز کا قیام سنجیدگی کے عزم کی لازمی علامت ہے، اگر ہمارے مطالبے کے مطابق ان کمیشنز کو اصولی طور پر تسلیم نہ کیا گیا اور فوری طور پر قائم نہ کیا گیا تو ہم مذاکرات جاری رکھنے سے قاصر رہیں گے۔
اجلاس کی اندرونی کہانی
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین مزاکرات کے تیسرا دور مذاکراتی کمیٹیوں کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کردار انتہائی مثبت رہا، حکومتی ممبران بھی وزیر اعلیٰ کے پی کے موقف کے معترف نظر آئے۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ مذاکراتی عمل کو مثبت انداز میں آگے برھنا چاہیے، ہم چاہتے ہیں حکومت جلدازجلد جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر پیشرفت کرے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق مذاکراتی کمیٹیوں کا آئندہ اجلاس 28 جنوری کو بلانے کے خواہاں ہیں،حکومتی کمیٹی نے پی ٹی آئی کمیٹی کی عمران خان سے اگلے 5 روز میں ملاقات کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ اپوزیشن نے جوڈیشل کمیشن کے لئے ججز کے ناموں پر مشاورت کرنے کی تجویز دی، حکومتی ارکان نے ججز کے نام کمیٹی میں فائنل کرنے کی تجویز کی مخالفت کی۔حکومتی اراکین نے مؤقف اپنایا کہ کمیٹی ججز کے نام فائنل نہیں کر سکتی، ججز کے ناموں کا معاملہ چیف جسٹس پر چھوڑنا پڑے گا۔
اوپن مذاکرات ہو رہے تو بیک ڈور رابطوں کی ضرورت نہیں: گنڈاپور
اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ابھی تو مذاکرات کے لیے جا رہے ہیں، اتفاق رائے کے حوالے سے پتہ چل جائے گا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا کہنا تھا جب بیٹھتے ہیں تو کچھ سوچ کر ہی بیٹھتے ہیں، شک و شبہات ہوتے تو میں حصہ ہی نہ بنتا، جب اوپن مذاکرات ہو رہے ہیں تو بیک ڈور مذاکرات کی ضرورت نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں