دنیا میں ہر سال لاکھوں بچے خسرے کی بیماری سے اپنی جان کھو بیٹھتے ہیں۔خسرہ ایک ایسی انفیکشن ہے جو وائرس سے پیدا ہوتی ہے۔اس بیماری کا مریض جب کھانستا یا چھینکتا ہے تو نہایت چھوٹے چھوٹے آلودہ قطرے ہوا میں پھیل جاتے ہیں جن میں خسرہ کے وائرس چھپے ہوتے ہیں اور تندرست انسانوں خاص طور پر بچوں میں بیماری پھیلانے کا سبب بن جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق 1999ء میں تقریباً 8 لاکھ 71 ہزار افراد اس بیماری کا نشانہ بنے تھے جبکہ 2004ء میں یہ تعداد 4 لاکھ 54 ہزار رہ گئی یعنی تقریباً نصف۔اس کی وجہ عالمی سطح پر ویکسین دینے کا عمل ہے اگرچہ تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک دنیا میں تمام بچوں کو خسرہ کی ویکسین کی سہولت فراہم نہیں کی جا سکی، اب بھی ہر سال لاکھوں بچے خسرہ کی ویکسی نیشن سے محروم رہ جاتے ہیں۔
پاکستان میں خسرہ کی وجہ سے اکثر بچوں کی ہلاکتیں ہوتی رہتی ہیں اور بعض اوقات یہ وبا کی صورت بھی اختیار کر جاتا ہے۔ماہرین کے مطابق خسرے سے ہلاکتیں حکومت کی جانب سے امیونائزیشن میں بڑے پیمانے پر بد انتظامی کو ظاہر کرتی ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں ویکسین کی شرح تقریباً پینسٹھ فیصد ہے اور پاکستان کے صرف چند شہروں میں ہی اس کی صورت حال بہتر ہے۔
ماہرین کے مطابق اس وبا کی ایک اور وجہ بچوں میں خوراک کی کمی بھی ہو سکتی ہے جو خسرے میں مبتلا بچوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔اندرون سندھ میں صورتحال بہت خطرناک ہے جہاں محکمہ صحت صرف پچیس فیصد بچوں کو ہی ویکسین دے پاتا ہے۔
خسرہ کے بارے میں یاد رکھیں کہ اس کا حملہ زندگی میں ایک بار ہی ہوتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پہلے ہی حملہ میں مریض کے نظام مدافعت میں کچھ ایسی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو بقایا تمام زندگی اس بیماری سے محفوظ رکھتی ہیں۔
خسرہ کے دوسرے تندرست لوگوں کو لگنے کا خطرہ اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب مریض کے جسم پر دانے نکل آتے ہیں اور دانوں کے ختم ہونے تک یہ خطرہ زیادہ رہتا ہے۔جو لوگ اس خطرے کی زد میں رہتے ہیں ان میں چھوٹے بچے نوجوان افراد اور ایسے لوگ جنہیں حفاظتی ٹیکے نہ لگے ہوں شامل ہیں۔خسرہ کی علامات بخار کے ساتھ شروع ہوتی ہیں تیز بخار ہو سکتا ہے۔بخار ریش یا دانے نکلنے سے پہلے چڑھتا ہے اور پانچ سے سات دن تک رہتا ہے۔
مریض کی بھوک ختم ہو جاتی ہے۔ناک اور آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے۔چھینکیں اور کھانسی آنے لگتی ہے۔کھانسی خشک مگر تسلسل کے ساتھ آتی رہتی ہے۔گلے میں سوزش ہو جاتی ہے۔آنکھیں سرخ ہو کر سوج سکتی ہیں او روشنی سے آنکھوں میں تکلیف ہوتی ہے۔منہ کی جھلی میں دوسری داڑھ کے بالمقابل ایک مخصوص ساخت بن جاتی ہے جس کو ”کوپلک سپاٹ“ کہتے ہیں۔
یہ دونوں کے نمودار ہونے سے تقریباً دو دن پہلے ظاہر ہوتی ہے اور چار دن تک رہ سکتی ہے۔خواتین میں حلق کی جھلی سرخ ہو جاتی ہے۔ٹانسلز پر پیلا سا مواد جمع ہو جاتا ہے۔زبان کے درمیانی حصہ میں سفید سی تہہ جم جاتی ہے لیکن زبان کی نوک اور سائیڈز پر یہ تہہ نہیں ہوتی۔
بیان کی گئی علامات کے تین یا چار دن بعد مریض کے جسم پر سرخ دانے نکلنے لگتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ سرخ دانے چہرے اور گردن پر نکلتے ہیں پھر یہ چھاتی اور پیٹ پر آ جاتے ہیں اور آخر میں ٹانگوں اور بازوؤں پر نکل آتے ہیں، ان سے ہتھیلیاں اور تلوے بھی محفوظ نہیں رہتے۔شروع میں یہ دانے کامن پن کے سر جتنے ہوتے ہیں پھر یہ آپس میں مل کر سرخی مائل، بے ترتیب سی شکل اختیار کر لیتے ہیں جبکہ شدید صورت میں یہ جسم کے مختلف حصوں پر سرخ نشانات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
پانچ سے سات دن تک موجود رہنے کے بعد جس ترتیب سے یہ سرخ دانے ظاہر ہوئے تھے اسی ترتیب سے آہستہ آہستہ غائب ہونے لگتے ہیں۔اگر کسی عورت کو پریگینسی کے دوران خسرہ کا مرض لاحق ہو جائے تو اس میں ابارشن ہونے کا خطرہ ہوتا ہے یا ڈلیوری جلدی ہو جاتی ہے مگر بچے پر خسرے کے اثرات نہیں پڑتے۔
خسرے سے بچاؤ کے لئے حفاظتی ٹیکوں کا کورس کروانا ضروری ہے۔
پہلا ٹیکہ نو ماہ کی عمر میں اور دوسرا ٹیکہ پندرہ ماہ کی عمر میں لگایا جاتا ہے۔اگر ایک سال سے کم عمر کے بچوں میں خسرہ کی وبا پھوٹ پڑے تو حفاظتی ٹیکہ چھ ماہ کی عمر میں بھی لگایا جا سکتا ہے جبکہ دوسرا ٹیکہ پندرہ ماہ کی عمر میں لگنا ضروری ہے۔اگر سکول، کالج اور یونیورسٹی میں خسرہ پھوٹ پڑے تو تمام طالب علموں کو حفاظتی ٹیکے لگوانا ضروری ہو جاتا ہے۔
یہ اہم بات یاد رکھیں کہ حاملہ خواتین کو ٹیکہ لگانا منع ہے۔اس کے علاوہ ایسے افراد کو بھی ٹیکہ نہیں لگانا چاہئے جن میں قوت مدافعت کم ہو۔
اگر مریض کے نزدیک رہنے والے افراد کو خطرہ ہو تو ان کو مریض سے ملنے کے پانچ دن کے اندر ٹیکہ لگوا لینا چاہئے۔خسرہ کے ٹیکوں کے کچھ ذیلی اثرات ہوتے ہیں جو عموماً زیادہ شدید نہیں ہوتے۔کچھ بچوں میں بیماری کی ہلکی سی علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔
ایسی صورت میں ٹیکا لگنے کے سات سے دس دن کے اندر ہلکا بخار اور کم شدت کے گلابی سے دانے خاص طور پر لڑکیوں میں پیدا ہو جاتے ہیں۔خسرہ کے سرخ دانے ظاہر ہونے کے بعد مریض کو آٹھ تا دس دن کیلئے کمرے میں علیحدہ کر دینا چاہئے اور کوشش کریں کہ وہ اس وقت تک مکمل آرام کرے جب تک اس کی حالت بہتر نہ ہو جائے۔